امت رپورٹ
وزیراعظم عمران خان کے طرز حکومت پر دانشوروں میں بھی تشویش پھیل گئی ہے۔ پالیسی ساز اداروں تک اپنی رائے پہنچانے والے تھنک ٹینکوں میں اب یہ بحث چل رہی ہے کہ پی ٹی آئی گورنمنٹ نے Right Man for Right Job والا کام نہیں کیا۔ یعنی اہم حکومتی عہدے اور وزارتیں ایسے لوگوں کے سپرد کر دی گئیں، جو اس کے اہل نہیں تھے۔ جس کی وجہ سے ہر کام غلط ہو رہا ہے اور حکومت کو اپنے ابتدائی دو ڈھائی ماہ کے دوران اس بحران اور اسکینڈلز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جو عموماً حکومتوں کو اپنے اقتدار کے ایک سے ڈیڑھ برس بعد درپیش ہوتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اسی قسم کی ایک ڈسکشن گزشتہ روز ایک ایسے ملکی تھنک ٹینک کے شرکا کے درمیان بھی ہوئی، جس کی سفارشات مضامین اور رپورٹس کی شکل میں ملک کے اعلیٰ اداروں اور تمام سفارت خانوں میں بھی جاتی ہیں۔ جبکہ تھنک ٹینک کی ان سفارشات اور آرا پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس تھنک ٹینک کے ذمہ داروں کی اکثریت عموماً وزیراعظم عمران خان کے ’’نئے پاکستان‘‘ کی حامی رہی ہے اور ان کا خیال ہے کہ جہاں دیگر پارٹیوں کی حکومتوں کو کئی مواقع ملے تو پی ٹی آئی کی قیادت کو بھی آزمانے میں کوئی حرج نہیں اور اسے اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے مناسب وقت دیا جانا چاہئے۔ تاہم ذرائع کے مطابق موجودہ حکمراں جس طرح معیشت سے لے کر دیگر حکومتی معاملات میں ناتجربہ کاری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس کے نتیجے میں تھنک ٹینک کے ذمہ داروں میں بھی اب تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ گزشتہ روز تھنک ٹینک کے زیر اہتمام بلائے جانے والے ایک فورم میں شرکا نے حکومتی اقدامات اور پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی۔ سابق فوجی افسروں، بیورو کریٹس اور دیگر شعبوں کے ماہرین پر مشتمل شرکا میں سے اکثریت کا کہنا تھا کہ 25 جولائی کے الیکشن کا رزلٹ آ جانے کے بعد پی ٹی آئی قیادت کی آنکھیں جانی چاہئے تھیں کہ اسے مرکز اور پنجاب میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ جس پر بحالت مجبوری اسے ایسی پارٹیوں کو بھی اتحادی بنانا پڑا، جو اپنی بلیک میلنگ اور شرپسندی کے حوالے سے شہرت رکھتی ہیں۔ جبکہ نمبر گیم پورا کرنے کے لئے تحریک انصاف کو پرانے مستری بھی بھرتی کرنے پڑے۔ اگر پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت مل جاتی تو وہ Handicap (معذور) نہ ہوتی۔ اسی طرح ملکی معیشت کے بارے میں بھی پی ٹی آئی قیادت کو پہلے سے معلوم تھا کہ یہ بری حالت میں ہے۔ یعنی اکانومی کا چیلنج اس کے سامنے اچانک نہیں آیا۔ دوسری جانب گزشتہ حکومتیں پولیس سسٹم، عدالتی نظام، بیورو کریسی اور تعلیم سمیت دیگر اہم اصلاحات نہیں کر کے گئیں، جبکہ احتساب بل بھی اب تک منظور نہیں ہو سکا۔ اس احتساب بل کی منظوری کے لئے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔ جس کے بعد احتساب کمیشن بنے گا اور پھر ہی بلا امتیاز احتساب کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق تھنک ٹینک کے شرکا کا کہنا تھا کہ ان تمام عوامل کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان کو چاہئے تھا کہ وہ قوم سے اپنے خطاب میں کھل کر کہتے کہ الیکشن سے قبل انہوں نے 100 دن میں حکومتی کارکردگی کا جو پیکیج دیا تھا، وہ اس صورت میں قابل عمل تھا، اگر پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت مل جاتی۔ اب ان کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہیں، لیکن ان کا عزم اور ارادہ یہی ہے، جو الیکشن سے پہلے بیان کیا تھا اور یہ کہ موجودہ صورت حال میں اس پیکیج پر عمل درآمد میں 100 دن کے بجائے چھ ماہ یا ایک برس لگ سکتا ہے۔ شرکا کے بقول یہ ایک ایسا جواز تھا جس سے اپوزیشن کا منہ بند اور عوام کو مطمئن کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اپنی ناتجربہ کاری کے سبب وزیراعظم عمران خان نے 100 دن کے پیکیج کی بڑھک مارنا جاری رکھا اور یوں خود کو پابند کر لیا۔ اس کے نتیجے میں حکومت ہر کام جلدی میں کر رہی ہے۔ جس سے پے در پے غلطیاں ہو رہی ہیں اور حکمرانوں کے بہت سے خیر خواہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ حکومت اور کتنے دن چلے گی؟ دوسری جانب پلان کے بغیر کئے جانے والے اعلانات پر عمل نہ ہونے پر ملک میں ایک عجیب سی غیر یقینی پھیلی ہوئی ہے۔ لہٰذا جس اپوزیشن کو سال چھ ماہ بعد متحرک ہونا تھا، وہ حکومت کے ابتدائی مہینوں میں صف بندی کر رہی ہے۔ اس موقع پر تھنک ٹینک کے شرکا میں سے ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ’’رائٹ مین فار رائٹ جاب‘‘ کو نظر انداز کرنے کا ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ اہم وزارتوں پر ایسے لوگ بٹھا دیئے گئے ہیں، جن کی زبان شائستگی سے عاری ہے۔ لہٰذا وہ حکومت کی مدد کرنے کے بجائے الٹا اس کے لئے پریشانی کا سبب بن رہے ہیں۔ ان لوگوں کو نہ وزارتوں کا قلمدان دیتے وقت اور نہ اس وقت سمجھایا جا رہا کہ وہ اب اپوزیشن یا کنٹینر پر نہیں کھڑے، بلکہ حکومت میں ہیں۔ ہر حکومت کے وزرا معاملات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ڈپلومیسی سے کام لیتے ہیں تاکہ امور حکومت خوش اسلوبی سے چلتے رہیں۔ لیکن اس کے برعکس حکومتی وزرا کی شعلہ بیانی اور غیر شائستہ طرز عمل کی وجہ سے ہر طرف ہڑبونگ مچی ہے۔ نہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی اور نہ ہی قومی اسمبلی کے اجلاس درست طریقے سے چل پا رہے ہیں۔ جنہیں دندان سازی کا تجربہ تھا، انہیں وزیر صحت بنانے کے بجائے صدر بنا دیا گیا اور جنہیں پراپرٹی کا تجربہ تھا، انہیں وزارت صحت کا قلمدان سونپ دیا گیا۔ حتیٰ کہ وزیراعظم نے مشیروں کا انتخاب بھی میرٹ کے بجائے ذاتی دوستیوں پر کیا۔ ذرائع کے بقول تھنک ٹینک کے زیادہ تر شرکا کا اس پر اتفاق تھا کہ 28 جولائی 2017ء کو جب نواز شریف کی گرفتاری عمل میں آئی تھی تو دیوار پر لکھا تھا کہ پی ٹی آئی کو ایک برس میں حکومت ملنے والی ہے۔ اس کے باوجود ضروری ہوم ورک نہیں کیا گیا اور کوئی ٹیم بنانے پر توجہ نہیں دی گئی۔ پی ٹی آئی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہی ہے۔ اب سب مل کر سوچ بچار کر رہے ہیں اور دماغ لڑا رہے ہیں، جو تیر کمان سے نکل جانے کے مترادف ہے۔ ذرائع کے مطابق تھنک ٹینک کے شرکا نے وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے عثمان بزدار کے انتخاب پر بھی کھل کر تنقید کی۔ اور کہا گیا کہ ایسی کیا مجبوری تھی کہ ملک کے 60 فیصد حصہ پر مشتمل صوبے کا کنٹرول ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے، جو اس کا اہل نہیں۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ایک کمزور وزیراعلیٰ لا کر وزیراعظم پنجاب حکومت کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے وزیر خارجہ نہ رکھنے پر نواز شریف کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ لیکن اب انہوں نے خود بھی وزیر داخلہ نہیں رکھا اور اس کے نتیجے میں آئے روز آئی جی اور ڈی پی او کی تبدیلیوں کے اسکینڈل بن رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق پیر کے روز اسی قسم کی ڈسکشن ایک اور تھنک ٹینک میں بھی ہوئی۔ جس میں وزیراعظم عمران خان کے زبانی احکامات پر آئی جی اسلام آباد جان محمد کو ہٹائے جانے کا ایشو غالب رہا۔ ذرائع کے مطابق شرکا کا کہنا تھا کہ اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ لیکن انہوں نے جس طرح بطور وزیراعظم محض زبانی احکامات پر آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ کرایا۔ ایسا قدم اٹھانے پر برطانوی وزیراعظم کو استعفیٰ دینا پڑ جاتا۔ شرکا کے بقول اس سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر ڈی پی او پاکپتن کو ہٹایا گیا اور پھر عمران خان کے کہنے پر آئی جی پنجاب محمد طاہر کو گھر بھیجا گیا۔ لیکن آئی جی اسلام آباد کو ہٹائے جانے کا معاملہ اس لئے سنگین ہے کہ یہ تبادلہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو تحریری حکم دیئے بغیر غیر قانونی طریقے سے محض وزیراعظم کے زبانی احکامات پر کیا گیا۔ جس کا اقرار اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں کر لیا ہے۔ اور یوں یہ سپریم کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ بھی بن چکا ہے۔ شرکا کا کہنا تھا قبل ازیں آئی جی پنجاب کا تبادلہ کرتے وقت کم از کم مروجہ طریقہ کار کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ذریعے تحریری احکامات کے بعد آئی جی پنجاب کا تبادلہ عمل میں آیا تھا۔ شرکا میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ کل تک پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کرانے کے دعوے کرنے والے وزیراعظم عمران خان آج اس کے برعکس اقدامات کر رہے ہیں جس سے بیورو کریسی میں بے چینی پائی جاتی ہے۔