امت رپورٹ
پاکستان کرکٹ میں کرپشن پر مبنی رپورٹ کو مسترد کرنے پر جسٹس (ر) ملک قیوم پی سی بی کے چیئرمین احسان مانی پر برہم ہوگئے۔ جبکہ چیئرمین بورڈ کے حالیہ بیان کے بعد عالمی میڈیا میں بھی نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ کرک انفو اور دیگر عالمی اخبارات میں پاکستان کرکٹ میں حالیہ فکسنگ اسکینڈلز کی وجہ جسٹس ملک قیوم کی کرپشن رپورٹ پر عملدرآمد نہ کرنا قرار دیا گیا ہے۔ جس کے باعث 1998ء سے لے کر اب تک فکسنگ میں سب سے زیادہ پاکستانی کھلاڑیوں کی شکایت سامنے آئی ہیں۔ دوسری جانب ملک قیوم نے شکوہ کیا ہے کہ پی سی بی نے ان کی رپورٹس پر سو فیصد عمل نہیں کیا۔ اسی سبب پاکستان آج تک کرپشن سے چٹھکارا حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنانے کا دعویٰ کرنے والے پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین احسان مانی نے جسٹس (ر) ملک عبدالقیوم کی رپورٹ کو نامکمل قرار دے کر وسیم اکرم اور دیگر کھلاڑیوں کو کلین چٹ دے دی۔ واضح رہے کہ جسٹس (ر) قیوم نے ستمبر 1998ء میں میچ فکسنگ کی تحقیقات کا آغاز کیا اور 18 ماہ بعد رپورٹ تیار کر کے بورڈ کو دی۔ اس دوران انہوں نے 33 افراد، 3 آسٹریلوی پلیئرز، 4 صحافیوں اور 13 پولیس حکام و دیگر متعلقہ شخصیات کے بیانات لیے۔ مشکوک میچز کی فہرست میں شامل ایک ایک مقابلے پر غورکیا گیا۔ تحقیقات مکمل ہونے پر سلیم ملک اور عطاء الرحمان تاحیات پابندی کے سزاوار ٹھہرے۔ وقار یونس، مشتاق احمد، وسیم اکرم، انضمام الحق، اکرم رضا اور سعید انور پر جرمانے عائد کئے گئے۔ شکوک کی زد میں آنے والے بیشتر کھلاڑیوں کو آئندہ پاکستان کرکٹ میں اہم ذمہ داریاں نہ دینے کی بھی سفارش ہوئی تھی۔ لیکن سب ایک ایک کر کے عہدے حاصل کرتے گئے۔ جسٹس (ر) ملک قیوم کی رپورٹ پر عمل نہ کرنے کے سبب پاکستان کرکٹ میں کرپشن کا خاتمہ ممکن نہ ہو سکا۔ وقار یونس کئی بار کوچ بن چکے ہیں۔ مشتاق احمد کو بھی کئی مرتبہ قومی ٹیم کا بالنگ کوچ بنایا گیا اور اب وہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی سے وابستہ ہیں۔ وسیم اکرم پاکستان سپر لیگ کے سفیر اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے ٹیم ڈائریکٹر ہیں۔ جبکہ انہیں اب کرکٹ کمیٹی کا ممبر بھی بنا دیا گیا ہے۔ انضمام الحق ان دنوں قومی کرکٹ کے چیف سلیکٹر ہیں۔ بورڈ کی کمزور پالیسی کے سبب 2010ء کا اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل بھی سامنے آیا۔ سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف اسٹنگ آپریشن میں پکڑے جانے پر جیل کی ہوا کھانے پر مجبور ہوئے۔ پھر عامر واپس آئے تو دیگر کا بھی حوصلہ بڑھا کہ جب وہ پیسے کھا کر چند برس بعد دوبارہ ہیرو بن سکتا ہے تو وہ بھی بن سکتے ہیں۔ یہی سوچ پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ کیس کا سبب بنی۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ چند سابق کرکٹرز بکیوں کے اب بھی فرنٹ مین کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ کرک انفو نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا وجہ ہوسکتی ہے پاکستان کرکٹ بورڈ ہمیشہ سے ملک قیوم کی رپورٹ قالین کے نیچے دباکر رکھتی ہے۔ اگر ان کی سفارشات پر سو فیصد عمل کیا جاتا تو شاید پاکستان اپنے نامور کھلاڑیوں کی خدمات سے محروم نہ رہتا۔ جسٹس قیوم کی رپورٹ کے وقت ہی اگر قصوروار کھلاڑیوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا تو شاید پاکستان کرکٹ دوبارہ داغدار نہ ہوتی۔دوسری جانب برطانوی خبر رساں نشریاتی ادارے کو حالیہ انٹرویو میں جسٹس ریٹائرڈ ملک محمد قیوم کا کہنا تھا کہ ’’احسان مانی کی جانب سے میچ فکسنگ کے حوالے سے میری رپورٹ کو نامکمل قرار دینا درست نہیں۔ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ بے نتیجہ تھی۔ یہ تحقیقاتی رپورٹ مکمل تھی اور اسی لیے میچ فکسنگ میں ملوث کرکٹرز پر عائد پابندیوں اور جرمانوں پر عملدرآمد ہوا۔ اس رپورٹ کے مطابق کرکٹرز پر پابندیاں لگی تھیں اور جرمانے عائد کیے گئے تھے۔ اگر یہ رپورٹ نامکمل ہوتی تو وہ کرکٹرز پابندی کی مدت کیسے پوری کرتے اور جرمانے کیسے ادا کرتے؟۔ مجھے نہیں پتہ کہ احسان مانی صاحب نے یہ رپورٹ پڑھی ہے یا نہیں۔ لیکن اگر انہوں نے یہ رپورٹ پڑھی ہوتی تو شاید وہ یہ بات نہ کہتے‘‘۔ جسٹس (ر) ملک محمد عبدالقیوم نے کہا کہ ان کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے صدر پاکستان کے کہنے پر قائم کیا تھا۔ تحقیقات ہائی کورٹ کی سطح پر ہوئی تھیں۔ تاہم یہ انکوائری کمیشن تھا، جس میں کورٹ کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ سفارشات تھیں۔ جن پر عملدرآمد کرانا پاکستان کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری تھی۔ لیکن ان کی جو بھی سفارشات تھیں، ان پر مکمل عمل تو دور کی بات یہ رپورٹ تو اب نظر انداز ہی کی جا رہی ہے۔ رپورٹ پر سو فیصد عملدرآمد کرانا پاکستان کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری بنتی تھی۔ لیکن وہاں چیئرمین کی تبدیلیوں کی وجہ سے صورت حال یہ رہی کہ کچھ نے اس پر عملدرآمد کرایا اور کچھ نے نظر انداز کیا۔
٭٭٭٭٭