امت رپورٹ
سابق وزیر اعظم نواز شریف اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے درمیان یہ طے پایا ہے کہ کچھ بھی ہو اپوزیشن کی قیادت مسلم لیگ (ن) ہی کرے گی۔ اگر متحدہ اپوزیشن کا قیام عمل میں آتا ہے تو کسی چھوٹی جماعت کو آل پارٹیز کانفرنس کر کے نواز لیگ کے کندھوں پر چڑھنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق فیصلہ کیا گیا ہے کہ شہباز شریف کے جیل میں ہونے کے باوجود نواز شریف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے بلائی گئی اے پی سی میں شرکت نہیں کریں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ روز (منگل کو) پارلیمنٹ ہائوس میں میاں نواز شریف نے شہباز شریف سے ملاقات کی تو حمزہ شہباز، خواجہ آصف، آصف کرمانی اور خواجہ سعد رفیق کو بھی بلا لیا گیا تھا۔ جس میں فیصلہ کیا گیا کہ راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں پانچ رکنی وفد اے پی سی میں شرکت کرے گا۔ اس وفد میں راجہ ظفرالحق، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، سردار ایاز صادق اور احسن اقبال شامل ہوں گے۔ اے پی سی میں شرکت کا یہ فیصلہ بھی اس لیے کیا گیا کہ اپوزیشن میں انتشار نہ نظر آئے۔ اس ملاقات میں مریم نواز موجود نہیں تھیں۔
گزشتہ روز سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پارٹی کے مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں شرکت کے لیے پارلیمنٹ ہائوس پہنچے تو قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پارلیمنٹ ہائوس کے صدر دروازے پر ان کا استقبال کیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا۔ جس کے بعد دونوں قائد حزب اختلاف کے چیمبر سے ملحقہ کمرے میں چلے گئے۔ نواز شریف 22 سال بعد قائد حزب اختلاف کے چیمبر میں آئے تھے۔ وہ 19 اکتوبر 1993ء سے 5 نومبر 1996ء تک قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف رہے۔ اس موقع پر شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز اور لیگی رہنما راجہ ظفرالحق، ایاز صادق، خواجہ آصف، پرویز رشید، آصف کرمانی، چوہدری تنویر، مریم اورنگزیب اور مرتضیٰ جاوید عباسی بھی موجود تھے۔ لیگی ذرائع کے مطابق ملاقات کے دوران شہباز شریف اور پارٹی کے سینئر رہنمائوں سے مشاورت کے بعد نواز شریف نے 31 اکتوبر کو ہونے والی اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ بھی کچھ دیر بعد قائد حزب اختلاف کے چیمبر میں پہنچ گئے۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ خورشید شاہ دیر تک سیاسی معاملات پر تنہائی میں راز و نیاز کرتے رہے۔ بعدا زاں نون لیگ کے ارکان اسمبلی بھی اپنے قائد سے ملے۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں اہم قومی امور پر اپوزیشن کے ساتھ مل کر چلنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی فیصلہ کیا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنمائوں پر ایک مشاورتی کونسل بنائی جائے، جو وقتاً فوقتاً تازہ ترین صورتحال کے لحاظ سے سیاسی حکمت عملی طے کرے۔ علاوہ ازیں نیب کے کیسز اور ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس سے قبل 28 اکتوبر کو مولانا فضل الرحمان سے ملاقات میں بھی نواز شریف نے اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کرتے ہوئے پارٹی وفد بھیجنے کے فیصلے سے مولانا کو آگاہ کر دیا تھا۔ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ اس سے قبل اپوزیشن کے تمام اجلاسوں میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف خود شریک ہوتے رہے ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی کی جانب سے کبھی بھی آصف علی زرداری اور بلاول زرداری نے شرکت نہیں کی۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی ہیں۔ نون لیگ کا وزن پیپلز پارٹی سے زیادہ ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کو یہ برتری حاصل ہے کہ سندھ میں اس کی حکومت ہے اور پنجاب میں بڑی جماعت ہونے کے باوجود نواز لیگ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آسکی، کیونکہ پیپلز پارٹی نے نواز لیگ کا ساتھ دینے سے انکار کیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ دونوں جماعتیں اس وقت نیب کے شکنجے میں ہونے کی وجہ سے ایک ہی جیسی کیفیت میں ہیں۔ ایسے میں ان دنوں اگر آصف زرداری اور میاں شہباز شریف اکٹھے قومی اسمبلی میں داخل ہوتے ہیں تو یہ بھی ایک اہم سیاسی ڈویلپمنٹ تصور ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف زرداری کو قریب لانے کی فضل الرحمان کی تمام کوششیں ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں۔ اگرچہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے دونوں جماعتوں کی حکومتوںسے مفادات سمیٹے ہیں۔ تاہم مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت اس حوالے سے اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے اپوزیشن اتحاد کے بارے میں تحفظات کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے زرداری سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا ہے۔ شہباز شریف نے ملاقات میں اپنے بڑے بھائی کو بتایا کہ ماضی قریب میں پیپلز پارٹی کو مشترکہ احتجاج کی دعوت دی گئی تھی مگر اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہونے کے باوجود انہوں نے احتجاج میں شرکت نہیں کی اور کسی احتجاجی تحریک کا حصہ بننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ مگر اب جب آصف زرداری پر مشکل وقت آ رہا ہے تو انہوں نے مفاہمت کی پیشکش کی ہے، مگر یہ وقت مناسب نہیں ہے، لہٰذا ان سے تعاون کے لیے مناسب نہیں ہو گا۔ خود نواز شریف نے بھی یہ موقف اختیار کیا کہ ابھی تمام توجہ مقدمات پر مرکوز ہے۔ پارٹی جی ٹی روڈ والی سیاست کی ان دنوں متحمل نہیں ہو سکتی، اس لیے جارحانہ سیاست سے گریز کیا جائے گا۔ اس بارے میں نواز لیگ کے جہاں دیدہ اور سینئر رہنمائوں نے بھی فی الوقت تصادم اور محاذ آرائی سے گریز کا مشورہ دیا اور کہا کہ فی الحال دیکھا جائے کہ زرداری اور پیپلزپارٹی کی دوسری قیادت کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے اور پیپلز پارٹی گرفتاریوں کی صورت میں کیا ردعمل اختیار کرتی ہے۔ تاہم ذرائع کے بقول اس کے باوجود مولانا فضل الرحمن کی کوششوں کو بالکل مسترد نہیں کیا گیا اور اس راستے کو کھلا چھوڑا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مولانا پی پی سے یقین دہانی حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف ازخود کوئی جارحانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہتے۔ وہ مناسب اور موزوں وقت کے انتظار میں ہیں۔
٭٭٭٭٭
Prev Post