عمران خان
اسمگلنگ میں ملوث کسٹم افسران کو بچانے کیلئے ایک اور کمیٹی قائم کردی گئی۔ پورٹ قاسم اور ایکسپورٹ پروسسنگ زون کراچی سے کلیئر کرائے جانے والے 8 کسٹم افسران کے خلاف کلکٹوریٹ کسٹم پریونٹو، کسٹم ایکسپورٹ کلکٹوریٹ اور کسٹم انٹیلی جنس کی ٹیموں کی جانب سے گزشتہ مہینے میں کارروائیاں کرکے مقدمات درج کئے تھے۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ پورٹ قاسم اور ایکسپورٹ پروسسنگ زون کے تقریباً 8 افسران جن میں اپریزنگ افسران اور پرنسپل اپریزر افسران شامل تھے، نے جعلی دستاویزات پر اسمگلنگ کا سامان کلیئر کرانے والی 7 کمپنیوں کو معاونت فراہم کی تھی۔ اس تحقیقات میں کسٹم کلکٹوریٹ پریونٹو کی جانب سے عبوری چالان بھی کسٹم کورٹ میں پیش کیا گیا تھا جس میں اسمگلنگ میں ملوث کسٹم افسران کے خلاف ناقابل تردید ثبوت اور شواہد شامل کئے گئے۔ ان میں مذکورہ کسٹم افسران کے موبائل نمبرز کا ڈیٹا بھی شامل تھا جو اسمگلنگ میں ملوث کمپنیوںکے نمائندوں سے رابطے میں تھے۔ تاہم انہیں سزائیں دلانے کے بجائے کسٹم حکام کی جانب سے ایک ’’فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی‘‘ قائم کردی گئی۔ یہ کمیٹی چیف کلکٹر کسٹم سائوتھ اور چیئرمین ایف بی آر آفس اسلام آباد کے حکام کے درمیان مشاورت کے بعد قائم کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق کمیٹی، ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹم ٹرانزٹ ٹریڈ کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے۔ تاہم یہ کمیٹی تاحال اسمگلنگ میں ملوث افسران کے خلاف حتمی رپورٹ مرتب نہیں کرسکی ہے۔ معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مقدمے میں نامزد کسٹم افسران کے خلاف ثبوت اور شواہد پر مشتمل عبوری چالان کے بعد کسی کمیٹی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم یہ کمیٹی اسمگلنگ میں ملوث بااثر کسٹم افسران کو بچانے کیلئے قائم کی گئی ہے۔ کیونکہ جن افسران کے خلاف تحقیقات شروع کی گئیں وہ ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ پورٹ قاسم اور ایکسپورٹ پروسسنگ زون کے بعض اعلیٰ کسٹم حکام کی سرپرستی میں کام کررہے تھے اور حاصل ہونے والی اضافی آمدنی سے انہیں بھی حصہ فراہم کرتے تھے۔ ذرائع کے مطابق ان 8 کسٹم افسران کے خلاف کارروائی جاری رکھی جاتی تو یہ اپنے سرپرستوں کے نام بھی ظاہر کرسکتے تھے۔ اسی لئے نئی کمیٹی قائم کرکے انہیں ریلیف دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ کسٹم کے ایک سینئر افسر کا کہنا ہے کہ اگر مقدمات کی تفتیش اور کمیٹی کی تحقیقات میں فرق آیا تب بھی اسمگلنگ میں ملوث افسران کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور وہ دونوں تحقیقات میں فرق کو بنیاد بنا کر اپنے خلاف ثبوت اور شواہد کو چیلنج کرسکتے ہیں۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق کسٹم پریونٹو کی اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن کی ٹیم نے خفیہ اطلاع پر پورٹ قاسم سے کلیئر ہوکر ماڑی پور اور اسٹیل ٹائون میں قائم دو گوداموں میں جانے والے 13کنٹینرز کو چھاپہ مار کر قبضے میں لیا تھا۔ 9 ستمبر 2018ء کو مقدمہ درج کیا گیا۔ دستاویزات کے مطابق مذکورہ کنٹینر، نیو چالی میں آر کے اسکوائر میں واقع الوحید ایمپیکس نامی کمپنی کے نام پر متحدہ عرب امارات سے منگوائے گئے تھے۔ اس کھیپ میں شامل کنٹینرز میں کمپنی کی جانب سے کلیئرنس کیلئے جمع کرائی گئی دستاویزات میں اس کھیپ کو ’’بی بی سی کٹنگ پیپر اسکریپ‘‘ ظاہر کیا گیا تھا۔ تاہم اس کے اندر ممنوعہ اشیا اسمگل کی گئی تھیں۔ بعد ازاں تحقیقات میں معلو م ہوا کہ الوحید کمپنی کے مالک وحید کو عرفان نامی ’’لپو‘‘ کی مدد سے دو بھائیوں اظہار اللہ بھٹی اور احسان اللہ بھٹی نے اپنی کمپنی کے ذریعے مذکورہ سامان منگوانے پر راضی کیا تھا اور اس کو ایک کنٹینر کے عوض ایک لاکھ روپے دینے کی پیشکش کی گئی تھی۔ اس کے بدلے میں وحید نے سامان منگوانے کیلئے اپنی کمپنی کے کوائف فراہم کئے تھے۔ مزید تحقیقات میں سامنے آیا کہ اس پوری اسمگلنگ کے پیچھے ماسٹر مائنڈ سمیع اللہ نامی شخص ہے جس کا تعلق پنجاب سے ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں وہ کراچی میں کام کرر ہا تھا۔ اسی شخص نے اظہار اللہ بھٹی اور احسان اللہ بھٹی نامی بھائیوں کو اپنے لئے کام کرنے پر راضی کیا اور انہوں نے عرفان کی مدد سے کرپٹ کسٹم افسران کا تعاون حاصل کرکے مجموعی طور پر چار کمپنیاں رجسٹرڈ کرائیں۔ ان کمپنیوں کے ناموں سے بینک اکائونٹ بھی کھلوائے گئے۔ یہ چاروں کمپنیاں کلیئرنگ ایجنٹ کے علاوہ امپورٹر کی حیثیت سے بھی کام کر سکتی ہیں۔ دستاویزات کے مطابق اس اسمگلنگ کیلئے عارضی انٹرنیٹ کنکشن خریداگیا اور اس کنکشن کو ایک دوسرے شخص کی کمپنی میں ایکٹو کرکے وہاں سے سامان کلیئرکرنے کیلئے جی ڈی یعنی گڈز ڈکلریشن کی دستاویزات کسٹم کے وی بوک سسٹم میں داخل کی گئیں۔ دستاویزات کے مطابق کسٹم پریونٹو اے ایس او کی ٹیم نے ضبط کئے جانے والے کنٹینرز میں اسمگلنگ ثابت ہونے کے بعد اس کمپنی کے ذریعے منگوائی جانے والی دیگر کھیپوں کا ریکارڈ حاصل کیا تو انکشاف ہوا کہ مذکورہ پانچوں ملزمان کی ملی بھگت سے صرف چند مہینوں میں 9 بار کھیپیں بیرون ملک سے منگوائی گئیں۔ ہر کھیپ میں 10 سے 13کنٹینرز شامل تھے اور یہ تمام کھیپیں ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ پورٹ قاسم سے ہی کلیئر کرائی گئیں۔ مزید تحقیقات ہوئیں تو انکشاف ہوا کہ یہ تمام کھیپیں ماڈل کسٹم کلکٹو ریٹ اپریزمنٹ پورٹ قاسم کے دو ایگزامنیشن افسران اپریزنگ آفیسر سدا بہار اور اپریزنگ آفیسر محمد ادریس نے کلیئر کی تھیں اور ان کو ماڈل کسٹم کلکٹو ریٹ کے ڈپٹی کلکٹر ایگزامینیشن کی معاونت حاصل رہی تھی۔ تحقیقاتی ٹیم نے ان دونوں کسٹم افسران سے پوچھ گچھ کی تو انکشاف ہوا کہ مذکورہ تمام کھیپیں ریڈ چینل سے کلیئر ہوئی تھیں۔ ریڈ چینل کسٹم کا وہ سسٹم ہے جس کے ذریعے کلیئر ہونے والی کنسائنمنٹ پہلے ہی مشکوک ہوتی ہے اور قواعد کے تحت ایگزامیننگ افسر کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ کھیپ کے تمام کنٹینرز کو مکمل طور پر کھول کرسارا سامان علیحدہ علیحدہ کرکے مکمل چیکنگ کرے۔ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ سے انکشاف ہوا کہ مذکورہ دونوں کسٹم افسران نے ریڈ چینل والی کھیپ کے 13کنٹینرز میں سے صرف ایک کنٹینر کو چیک کیا اور وہ بھی باہر سے سامان دیکھا اور کنٹینر واپس بند کرادیا گیا۔ اس کا ان دونوں کسٹم افسران نے اعتراف کیا کہ جس وقت وہ جانچ پڑتال کر رہے تھے اس وقت سامان کلیئر کرانے والی کمپنی کے دو نمائندے اظہار اللہ اور عرفان ان سے مسلسل رابطے میں تھے۔ بلکہ وہ دونوں غیر قانونی طور پر کنٹینر یارڈ میں بھی کسٹم افسران کے ساتھ ہی موجود رہے، حالانکہ اس جگہ پر غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع ہے۔ اسی طرح پرنسپل اپریزر افسر سلطان اورنگزیب کا کرادر بھی مشکوک انداز میں سامنے آیا جس پر ان سے پوچھ گچھ کی گئی اور ان کے بیان کو بھی کیس فائل کا حصہ بنادیا گیا۔ مذکورہ رپورٹ کسٹم آفیسر طیب کی جانب سے تحقیقات کے بعد تیار کی گئی جس میں ٹیم کے دیگر افسران کی جانب سے کی گئی تفتیش کو بھی شامل کیا گیا۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پورٹ قاسم کسٹم اپریزمنٹ کے افسران کی ملی بھگت سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ یہ سب کچھ کلکٹر کسٹم اپریزمنٹ پورٹ قاسم چوہدری جاوید اور چیف کلکٹر سائوتھ عبدالرشید شیخ کی ناک کی نیچے ہوتا رہا۔ تاہم دونوں افسران کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، جس سے ان کے فرائض کی ادائیگی کے کردار پر بھی سوالیہ نشان اٹھنے لگے ہیں۔ اس ضمن میں موقف جاننے کیلئے جب کلکٹر کسٹم پریونٹو افتخاراحمد سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم نے چھاپے مارکر اسمگلنگ کے کنٹینرز پکڑے اور اس میں ملوث کسٹم افسران کے خلاف مقدمہ قائم کیا۔ جبکہ اس حوالے سے عبوری چالان بھی پیش کردیا ہے۔ اب اگر کوئی اور کمیٹی بنی ہے، تو بنانے والے ہی جواب دے سکتے ہیں۔ ہماری تحقیقات اپنی جگہ چل رہی ہیں۔
٭٭٭٭٭