غازی علم دین شہید کا عرس آج شام اختتام پذیر ہوگا

0

عظمت علی رحمانی
غازی علم الدین شہید کا 89 واں دو روزہ عرس آج شام (بدھ کو) ختم ہوگا۔ دوپہر میں ہزاروں عقیدت مند میانی صاحب قبرستان جمع ہوں گے، جہاں تحریک لبیک پاکستان کے امیر علامہ خادم حسین رضوی اختتامی خطاب و دعا فرمائیں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز (منگل کو) لاہور کے علاقے اچھرہ میں قطب شاہ ولی کے دربار سے غازی علم الدین شہیدؒ کے مزار واقع میانی صاحب قبرستان تک تحریک لبیک پاکستان کے زیر اہتمام ریلی نکالی گئی تھی۔
1932ء میں آریہ سماج نامی انتہا پسند ہندو تنظیم جو مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کیلئے دل آزار کتابیں شائع کراتی تھی، اس کے سرگرم رکن اور مصنف و ناشر راجپال نے ناموس شان رسالت میں گستاخی پر مبنی ایک دل آزار کتاب شائع کی۔ مسلمانوں کے احتجاج کو ٹھنڈا کرنے کیلئے انگریز سرکار نے ملعون راجپال کے خلاف مقدمہ درج کرایا اور سیشن کورٹ نے 6 ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ تاہم ہائی کورٹ نے نہ صرف ملعون راجپال کو بری کر دیا، بلکہ اس کا جرمانہ بھی معاف کر دیا گیا۔ جبکہ اس دل آزار کتاب کی اشاعت جاری رہی۔ یکم اپریل 1929ء کی رات لاہور کے ایک نوجوان علم الدین اپنے بڑے بھائی کے ساتھ دہلی دروازہ کے باغ میں جلسہ سننے گئے، جہاں سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے بڑی رقت انگیز تقریر کی۔ لاہور میں اس وقت دفعہ 144 کا نفاذ تھا، جس کی رو سے کسی نوعیت کا جلسہ یا اجتماع نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن مسلمانوں کا ایک فقید المثال اجتماع بیرون دہلی دروازہ درگاہ شاہ محمد غوث کے احاطہ میں منعقد ہوا۔ وہاں شاہ صاحبؒ نے جو تقریر کی، وہ اتنی دل گداز تھی کہ سامعین پر رقت طاری ہوگئی۔ 6 اپریل 1929ء کو علم الدین ٹھیک ایک بجے ملعون راجپال کی دکان پر پہنچ گئے اور اس بدبخت کو جہنم رسید کر دیا۔ اپریل 1929ء کو سیشن جج کی عدالت میں غازی علم دین کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت شروع ہوئی۔ 22 مئی 1929ء کو غازی صاحب کو سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا۔ 30 مئی کو ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ 15 جولائی کو قائدِ اعظم محمد علی جناح غازی علم دین کی وکالت کیلئے ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، مگر ہائی کورٹ نے اپیل خارج کر دی، جس کے نتیجے میں 31 اکتوبر 1929ء کو میانوالی جیل میں غازی علم دینؒ کو پھانسی دے دی گئی۔
غازی علم دینؒ کی شہادت کے بعد انگریز حکومت نے آپؒ کے جسد خاکی کو قبضے میں رکھا اور کسی نامعلوم مقام پر سپرد خاک کر دیا، جس پر شدید احتجاجی لہر اٹھی۔ 4 نومبر 1929ء کو مسلمان رہنماؤں کے ایک وفد (جن میں علامہ اقبال، سر محمد شفیع، مولانا عبدالعزیز، مولانا ظفر علی خان، سر فضل حسین، خلیفہ شجاع، میاں امیرالدین، مولانا غلام محی الدین قصوری شامل تھے) نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی اور جسد خاکی کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ گورنر نے شرط عائد کی کہ اگر مذکورہ رہنما پر امن تدفین کی ذمہ داری اور کسی گڑبڑ کے نہ ہونے کی یقین دہانی کرائیں تو جسد خاکی مسلمانوں کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ وفد نے یہ شرط منظور کرلی۔ 13 نومبر 1929ء کو مسلمانوں کا ایک وفد سید مراتب علی شاہ اور مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن کی قیادت میں میانوالی روانہ ہوا اور دوسرے روز جسد خاکی وصول کیا۔ موقع پر موجود لوگوں کا بیان تھا کہ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود جسدِ مبارک بالکل صحیح و سالم تھا۔ چہرے پر غسل کے پانی کے قطرے ایسے چمک رہے تھے، جیسے ابھی غازی شہید نے وضو کیا ہو۔ چہرے پر جلال و جمال کا حسین امتزاج تھا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ سجی تھی۔ محکمہ ریلوے نے جسد خاکی 15 نومبر 1929ء کو لاہور چھاؤنی میں علامہ اقبال اور سر محمد شفیع کے حوالے کیا۔ غازی علم دین شہیدؒ کا جنازہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا، جس میں تقریباً چھ لاکھ عاشقان رسول نے شرکت کی۔ جنازے کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا۔ شہید کی نماز جنازہ قاری شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی۔ مولانا دیدار شاہ اور علامہ اقبال نے شہید کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا، جس پر مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا ’’کاش! یہ مقام مجھے نصیب ہوتا‘‘۔ اس موقع پر علامہ اقبال نے فرمایا ’’ترکھان کا لڑکا ہم سب پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا‘‘۔ لوگوں نے عقیدت میں اتنے پھول نچھاور کیے کہ میت ان میں چھپ گئی تھی۔ آپؒ کو لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ لاہور میں بہاولپور روڈ کے کنارے میانی صاحب قبرستان میں آپ کی آخری آرام گاہ پر ہمہ وقت عاشقان رسول کی حاضری جاری رہتی ہے۔ مزار کے چہار اطراف برآمدہ ہے۔ مزار بغیر چھت کے ہے۔ مشرقی جانب غازی صاحبؒ کے والد محترم اور والدہ محترمہ آسودہ خاک ہیں۔
غازی صاحبؒ کی برسی کے حوالے سے تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات پیر اعجاز اشرفی کا کہنا تھا کہ ’’ہم ہر سال شہید ناموس رسالت کے عرس پر تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ منگل کی سہ پہر ہم نے ریلی نکالی جو اچھر ہ قطب شاہ ولی کے دربارسے غازی علم الدین شہیدؒ کے مزار تک گئی۔ آج (بدھ کو) کو امیر تحریک علامہ خادم حسین رضوی اختتامی تقریب سے خطاب کریں گے اور دعا کرائیں گے۔ یاد رہے کہ غازی علم دینؒ 3 دسمبر 1908ء بمطابق 8 ذیقعدہ 1366ھ کو لاہور کے ایک علاقے کوچہ چابک سواراں (موجودہ نام محلہ سرفروشاں) میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد کا نام طالع مند تھا، جو ترکھان یعنی لکڑی کے کاریگر تھے۔ غازی علم دینؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کی تکیہ سادھواں کی مسجد اور بازار نوہریاں اندرون اکبری دروازہ بابا کالو کے مدرسے میں حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپؒ نے اپنے آبائی پیشے کو اختیار کیا اور اس فن میں اپنے والد اور بڑے بھائی میاں محمد امین کی شاگردی اختیار کی۔1928ء میں آپ کوہاٹ منتفل ہو گئے اور بنوں بازار میں فرنیچر سازی کا کام شروع کیا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More