اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) سینئر قانون دانوں نے کہا ہے کہ وزیراعظم کا زبانی احکامات پرآئی جی اسلام آباد کا تبادلہ کرکے سیاسی مداخلت ہے،اس لیے ان کے خلاف سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہل کرسکتی ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب کوعدالت نے تنبیہ کرکے چھوڑ دیاتھا اور اب یہ دوسرامعاملہ سامنے آگیاہے اس میں وزیراعظم کی مداخلت کااٹارنی جنرل نے اقراربھی کیاہے۔ان خیالات کااظہار جسٹس (ر) کمال احمد، ڈاکٹرمحموداسلم ایڈووکیٹ ،نذیراحمدایڈووکیٹ ،ریاست علی ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگوکے دوران کیاہے ۔ جسٹس (ر)کمال احمدایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے کہاکہ پی ٹی آئی کی حکومت ابتداء میں ہی غلطیوں پر غلطیاں کیے جارہی ہے اور اس کاان کواحساس تک نہیں ہے۔ان غلطیوں کے نتائج اچھے برآمدنہیں ہونگے۔چیف جسٹس پاکستان کاابھی ریٹائرمنٹ میں کچھ عرصہ باقی ہے اس دوران حکومت کومحتاط رہناہوگاکیونکہ موجودہ سپریم کورٹ کسی بھی ادارے کی غلطیوں پرخاموش نہ رہنے اور اس پرکارروائی کرنے کافیصلہ کیے ہوئے ہے،سپریم کورٹ نے منگل کوپاکستان ایئرفورس کے حوالے سے بھی ایک کیس کافیصلہ دیاہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ سپریم کورٹ آئین وقانون کی بالادستی کے لیے کوئی بھی اقدام کرسکتی ہے ایک طرف بنی گالہ کامعاملہ ہے تودوسری طرف سیاسی بنیادوں پرسرکاری افسران کی تقرریاں اورتبادلے حکومت کے لیے دردسربنے ہوئے ہیں۔ڈاکٹرمحموداسلم ایڈووکیٹ نے کہاکہ وزیراعظم پاکستان کے زبانی احکامات پر آئی جی اسلام آبادکاتبادلہ کوئی عام بات نہیں ہے جس سے واضح پتہ چل رہاہے کہ حکومت اپنے کسی وزیرکے کسی رشتہ دار کے ساتھ ہونے والی کوئی زیادتی بھی برداشت کرنے تیار نہیں ہے،وزیراعلیٰ پنجاب توآرٹیکل 62ون ایف کی زدمیں آتے آتے بال بال بچے ہیں مگریہ نیا پنڈورہ باکس حکومت کے لیے مسائل پیداکرسکتاہے،ویسے بھی اس طرح کے تبادلے سیاسی مداخلت قرار دیے جاسکتے ہیں اور وزیراعظم پاکستان کے خلاف سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت کارروائی کرسکتی ہے۔ نزیراحمدایڈووکیٹ نے کہاکہ سمجھ میں نہیں آتاکہ حکومت جان بوجھ کر غلطیاں کیوں کررہی ہے۔ایک طرف سول بیوروکریسی کے عدم تعاون کی شکایت کی جاتی ہے تودوسری جانب جب جی چاہے سرکاری ملازمین کوسیاسی بنیادوں پر ادھرادھرکردیاجاتاہے۔چیف جسٹس نے اس طرح کے معاملات پر بہت گہری نظررکھی ہوئی ہے،دیکھتے ہیں کہ حکومت اس معاملے میں کیاجواب عدالت میں پیش کرتی ہے، ریاست علی ایڈووکیٹ نے کہاکہ ان کی دانست میں توحکومت کوفوری طور پر غیر مشروط معافی مانگ کراس نئے معاملے سے جان چھڑ الینی چاہیے،اگر ایسانہ کیاگیاتوحکومت کے لیے مسائل پیداہوں گے۔ابھی توآئی جی بیرون ملک کسی کورس کی تکمیل کے لیے گئے ہیں وہ واپس آکر کیابیان دیتے ہیں وہ اپنے تبادلے بارے کیاموقف پیش کرتے ہیں ان کاموقف بھی انتہائی اہم ہے،اگروہ یہ کہ دیتے ہیں کہ ان کوسواتی کے کہنے پر ہٹایاگیاہے حالانکہ ان کافون نہ رسیوکرناکسی اور وجہ سے بھی ہوسکتاہے۔ممکن ہے کہ فون ان کے پاس موجودنہ ہوان کواہلکاروں نے وقت پر نہ بتایاہوسوطرح کے معاملات چل رہے ہوتے ہیں۔