کابل (امت نیوز) افغانستان میں امریکی فوج و افغان قومی افواج نے مدرسے کے 7 طلبا، ڈاکٹر سمیت 14 افراد کو شہید اور 11 کو گرفتار کرلیا۔ مسلح افواج نے درجنوں گھروں اور دکانوں کو تباہ بھی کر دیا۔ طالبان نے جاری الخندق آپریشن کے دوران ننگرہار، کابل، میدان، جوزجان، کاپیسا اور غزنی صوبوں میں 18فوجیوں و کمانڈر سمیت 30 مخالفین کو ہلاک کرنے اور 8 ٹینک،گاڑیاں تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ صوبہ بلخ میں21 فوجیوں نے طالبان کے سامنے ہتھیار پھینک دیئے۔ تفصیلات کے مطابق امریکی و افغان افواج نے میدان، غزنی و پکتیکا صوبوں کے مکینوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ پیرو منگل کی درمیانی شب صوبہ غزنی کے ضلع واغظ کے گاؤں سربلند قلعہ میں واقع مولوی موسی خان کے مدرسے پر امریکی و افغان افواج نے چھاپہ مار کر 7طلبا کو شہید کردیا۔ میدان کے ضلع چک کے علاقہ حسین قلعہ پر امریکی فوجی کمانڈوز نے چھاپہ مار کر عوام پر تشدد کیا اور 4 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ صوبہ پکتیکا کے ضلع نکہ کے بازار و 4دیہات نورکی، سرہ قلعہ، صدق و بازگ پر امریکی فوج نے حملہ کر کے ڈاکٹر زکیم کو شہید جبکہ بازار میں واقع 40دکانیں و صدق نامی گاؤں میں ایک شخص کا گھر جبکہ بازک گاؤں میں4دکانوں کو نذر آتش کر دیا۔ طالبان نے 4 روز سے جاری جھڑپوں میں شجاعی گروپ کے نائب کمانڈر (فکور) و کمانڈر علی خان، کمانڈر قمر، کمانڈر عبد اللہ ملک اور کمانڈر عبد الخالق سمیت30 کے ہلاک اور کمانڈر شجاعی کے زخمی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب تک اس کی توثیق بھی نہیں ہوسکی۔ طالبان نے کابل انتظامیہ کی جانب سے بچوں اور خواتین کو شہید کرنے کے دعوے کی تردید کی ہے۔ طالبان نے پیر کو جلال آباد کے قریب رنگ روڈ پر رینجر گاڑی بارودی سرنگ سے اڑانے اور اس میں سوار 4اہلکاروں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ صوبہ جوز جان کے ضلع فیض آباد میں 2چوکیوں پر حملہ کر کے کمانڈر سمیت 12اہلکاروں کی ہلاکت، ایک چوکی پر قبضے، 4 ٹینک کر دیئے۔ کابل کے ضلع قرہ باغ میں کابل بگرام ہائی وے پر پولیس رینجرز گاڑی تباہ، جبکہ چرخاب میں فوجی رینجر گاڑی تباہ اور اس میں سوار اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ضلع سیدآباد میں فوجی ٹینک تباہ کردیا گیا۔ کاپیسا ضلع تگاب کے علاقے باچا صاحب ورسک کے مقام پر2 فوجی ہلاک کر دیئے گئے۔ پروان کے ضلع بگرام میں خفیہ ادارے کے اہلکار ملک آصف کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
٭٭٭٭٭
واشنگٹن (امت نیوز) طالبان نے امن مذاکرات کیلئے 5رہنما نامزد کر دیئے ہیں۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے4 برس قبل گوانتا ناموبے سے امریکی فوجی برگڈال کے بدلے رہا 5رہنما قطر دفتر کا حصہ بننے کی تصدیق کردی ہے۔ یہ مستقبل قریب میں امن مذاکرات کرنے والی ٹیم میں شامل ہوں گے۔ ان رہنماؤں میں طالبان کے سابق آرمی چیف محمد فضل شامل ہیں جنہیں 2002 میں گرفتار کر کے گوانتا ناموبے منتقل کیا گیا تھا۔طالبان دور میں گورنر ہرات رہنے والے خیراللہ خواہ طالبان کے بانی ملا عمر اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے علاوہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کا دوست رہے ہیں۔ نائب وزیر انٹیلی جنس عبدالحق واثق اور ملا نور اللہ نوری ٹیم میں شامل ہوں گے۔ مغربی میڈیا کے مطابق زلمے خلیل زاد کے دورے کے بعد پاکستان کی جانب سے رہائی پانے والے رہنما ملا عبدالغنی برادر کا ایک آیڈیو بیان سامنے آیا۔ پشتو میں جاری آیڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملا برادر بھی ممکنہ امن مذاکرات کیلئے کردار ادا کرنے کی تیاریوں میں لگے ہیں۔افغان سیاسی مبصر ہارون میر کا کہنا ہے کہ طالبان اپنے پرانے رہنماؤں کو آگے لا رہے ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ وہ قیادت اور سوچ بدلنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے سب سے پریشان کن صورتحال یہ ہے کہ اگر کل طالبان نے امن مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا تو افغانستان کی نمائندگی کون کرے گا، کیونکہ کابل حکومت ناصرف نظریاتی بنیاد پر منقسم ہے، بلکہ یہ نسل بنیادوں پر تقسیم ہے۔ افغان حکومت کی قائم کردہ امن کونسل کے ممبر محمد اسماعیل قاسم یار کا کہنا ہے کہ امریکہ کسی بھی طرح طالبان کی شرائط پر امن بات چیت نہ کرے ۔امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد کا مقصد طالبان اور کابل حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار کرنا ہونا چاہئے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ طالبان کی جانب سے اکتوبر کے آغاز میں طالبان سے قطر میں اہم مذاکرات کئے جانے کی تصدیق کی گئی تھی جس کی اب تک امریکہ نے تصدیق یا تردید نہیں کی ۔امریکی خبر ایجنسی کے مطابق قطر میں ہونے والی بات چیت سے واقف ایک طالبان رہنما کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں فریقین نے دوبارہ ملنے پر اتفاق کیا ہے ۔طالبان کی جانب سے پیش کش کی گئی شرائط میں قطر کا دفتر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔افغان حکومت کی قائم کردہ امن کونسل کے رکن اور سابق طالبان رہنما حکیم مجاہد کا کہنا ہے کہ گوانتا ناموبے سے رہا کئے جانے والوں کی قطر دفتر میں موجودگی طالبان کی جانب سے امن مذاکرات کیلئے پختہ عزم کا اظہار ہے ۔یہ لوگ طالبان میں احترام کے حامل ہیں اور ان کی بات قیادت اور مجاہدین میں وزن رکھتی ہے ۔
٭٭٭٭٭