ہائیکورٹ کے فیصلے اور شواہد کو نہیں دیکھا گیا – قانونی ماہرین
اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )سینئر قانون دانوں نے کہاہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ملزمہ ملعونہ آسیہ کورہاکرنے کافیصلہ مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے مترادف ہے،اس فیصلے سے ملک میں احتجاج کانہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع ہوگیاہے،غازی علم الدین شہیدکی شہادت کے دن ملزمہ کورہائی نہیں دینی چاہیے تھی ۔ان خیالات کااظہار اکرام الحق چوہدری ایڈووکیٹ،بیرسٹرجاویداقبال،جسٹس(ر)فیاض احمد، شہزاد ایڈووکیٹ ،سلمان ایڈووکیٹ نے روزنامہ امت سے گفتگوکے دوران کیاہے ۔بعض وکلاء نے نوکمنٹ کہہ کربات کرنے سے ہی انکار کردیا۔ اکرام الحق چوہدری ایڈووکیٹ نے کہاکہ ناموس رسالت ﷺکے معاملے میں شکایات پربیرونی عناصر کوبہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے اس وقت ان کی یہ تکلیف اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ جب کسی توہین کرنے والے ملزم کوگرفتارکیاجائے یاپھر اسے سزادی جائے ۔انھوں نے کہاکہ یورپی یونین نے بھی آزادی اظہار رائے کے تحت مذاہب اور محترم شخصیات کی توہین کوغلط قرار دیاہے ۔انھوں نے کہاکہ ناموس رسالت ﷺکے قانون کے تحت ملزمان کاٹرائل اعلیٰ عدلیہ کے تحت ہوناچاہیے تاکہ ملزمان کوبعدمیں یہ کہنے کاموقع نہ مل سکے کہ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے یاان کوجان بوجھ کر پھنسایاگیاہے ۔بیرسٹرجاویداقبال نے کہاکہ اگر پہلے یہ کیس اتنے عرصے سردخانے کی نذررہ سکتاہے تواب بھی فیصلہ میں تاخیرکی جاسکتی تھی ،غازی علم الدین شہیدکی شہادت کے د ن اس طرح کافیصلہ کیوں دیاگیا اس کوکسی اور روزبھی دیاجاسکتاتھا۔اس دن فیصلے سے بھی مسلمانوں کے لیے اچھاپیغام نہیں گیا ۔جسٹس (ر)فیاض احمدنے کہاکہ عدالت کافیصلہ آگیاہے اب یہ پبلک پراپرٹی ہے اس پر فیئر کمنٹس کیے جاسکتے ۔انھوں نے کہاکہ استغاثہ کی مہربانیوں کی وجہ سے آج ایک ملزمہ کورہائی مل گئی ،پتہ نہیں یہ نظام کب درست ہوگابیرون ملک کوئی مسلمان یاکوئی پاکستانی ذراساکوئی کام کردیں توان کی عدالتیں بغیر کسی سوچ وبچار کے سزاسنادیتی ہیں مگرہمارے ہاں صرف توہین عدالت کے معاملات پر توزوردیاجارہاہے اور بعض سیاسی رہنماؤں کوسزابھی دی گئی ہے اور مزیدکودی جانے والی ہے مگر یہاں تونبی مکرم ﷺکی ذات کی با ت ہے اس حوالے سے عدالت کودنیاوی قوانین کیوں یاد آجاتے ہیں ۔سپریم کورٹ نے فیصلہ تودے دیاہے مگر اس کے نتائج قوم کوبھگتناہوں گے اوروہی بھگتے گی ،ہمارے نبی پاک ﷺکی ذات ہمارے لیے ارفع واعلیٰ ہے ان کی حرمت ہمارے لیے بہت ہی اہم ہے ہم ان پر جان بھی واردینے کے لیے تیار ہیں ۔ہائی کورٹ کے فیصلے کویکسر نظراندازکیاگیااور عدالت عالیہ لاہور کے بیان کردہ پہلوؤں کاجائزہ لینے کی بجائے نئے سرے سے گواہوں کوپرکھاگیاان کی گواہیاں دیکھی گئیں ،کیاایساسب مقدمات میں کیاجاتاہے توجواب نفی میں ہی آئیگا۔شہزاد ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں نے مدعی کے وکیل سے برابر رابطہ رکھا ہم نے روزانہ کی بنیادپر اس کیس کی تیاری کی مگر ہمارے دیے گئے شواہد اور دلائل کونہیں دیکھاگیا،کہیں کہاگیاکہ فوجداری مقدمات میں یہ اصول کام نہیں کرتا،کہیں کہاگیاکہ عدالت عالیہ کے سزائے موت کے فیصلے سے اتفاق نہیں ، کہیں گواہوں کوجھوٹاقر اردیاگیا۔سلمان ایڈووکیٹ نے کہاکہ اس فیصلے کے بعداب موجودہ حکومت کے دن بھی کم ہوناشروع ہوجائیں گے یہ حکومت اب زیادہ دیر چلنے والی نہیں ۔پہلے ممتازقادری کامعاملہ اور اب یہ معاملہ سامنے آیاہے ۔لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے دیوانے ہیں وہ کبھی اس بات کوبرداشت نہیں کریں گے کہ چاہے کوئی عدالت ہی کیوں نہ توہین رسالت ﷺکے ملزم کورہائی دے ۔
کراچی/لاہور(اسٹاف رپورٹر/نمائندہ خصوصی)سینئر وکلا نے سپریم کورٹ کے ملعونہ آسیہ کے حق میں فیصلے کو تحفظ ناموس رسالت قانون کے خاتمے کا دیباچہ قرار دیتے ہوئے ہوئے کہا ہےکہ عدالت عظمی نے ایک آئینی عدالت کی سطح سے نیچے اتر کر ٹرائل کی باریکیوں میں پڑنے کی کوشش کی۔عدالت عظمی کو فیصلے سے پہلے ماہرین شریعت ، علما اور وفاقی شرعی عدالت سے معاونت لینا چاہیے تھی۔رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آسیہ مسیح کی اپیل منظور کر کے ناموس رسالت قانون کے خلاف دیباچہ لکھ دیا ہے، آئندہ دنوں میں بیرونی ایجنڈے والی این جی اوز کا کام شروع ہو جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد اگر نظرثانی میں اپیل رد بھی ہو گئی تو آسیہ ملک سے باہر پوری حفاظت اور پروٹوکول کے ساتھ راونہ ہو چکی ہو گی۔ اور اس کی ذمہ داری بھی کسی پر نہ آ سکے گی۔ ہماری آئینی عدالت نے ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے فیصلے کے بعد ٹرائل کی باریکیوں کو نہیں دیکھنا تھا ۔ فاضل بینچ نے آئینی عدالت کے مرتبے سے ہٹ کر فیصلہ کیا ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یورپی عدالت کے فیصلے کو یہ عدالت دیکھ لیتی اور اس کی روشنی میں آسیہ کی سزا برقرا رکھتی ۔ لیکن ناموس رسالت قانون کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ اظہر صدیق ایڈوو کیٹ کاکہناتھاکہ یہ عام کیس نہیں تھا ، سپریم کورٹ کو اس بارے میں پہلے وفاقی شرعی عدالت اور علما سے مشاورت اور معاونت لینی چاہیے تھی۔یہ فیصلہ قابل نظر ثانی ہے اور انویسٹی گیشن کی کمزوریوں کا فائدہ ملزمہ کو نہیں دینا چاہیے تھا۔جسٹس (ر)وجہیہ الدین احمد نے کہاکہ بنیادی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا اسے قبول کرنا چاہئیے تاہم فیصلے میں سقم ہے تو فورا نظر ثانی کی اپیل داخل کی جائے جو چیزیں غلط ہیں انہیں سامنے لایا جائے ،میں سمجھتا ہوں کہ کسی کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں ، ہر چیز کے 2 رخ ہوتے ہیں اب آسیہ کے گھر والے اور بیرونی این جی او کہہ رہے تھے کہ ہمارے حق میں فیصلہ آئے گا تو وہ ججز کے خلاف ہی بات کر رہے تھے ایسے لوگوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔سینیئر وکیل حشمت حبیب نے کہا کہ آسیہ کیس میں 3 ججز نے مشترکہ فیصلہ دیا ہے کہ شک کی بنا پر آسیہ کو بری کرتے ہیں ان کے فیصلے آئین و قانون کے مطابق ہیں ۔ اس کیس میں حکومت کے مقررہ کردہ ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل عدالت کو مطمئن کر نہیں سکے اور بڑی عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے شک کا فائدہ دیا، حکومت فوری طور پر آسیہ کو نظر بند کرے کیونکہ اس کے بیرون ملک جانے سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گا۔مشتاق جہانگیری نے کہا کہ آخری نبی ؐ کی ذات سے بڑھ کر آئین و قانون نہیں ، سپریم کورٹ نے دستیاب شواہد کی بنا پر فیصلہ دیا اور آسیہ کو بری کر دیا جہاں تک آسیہ کے گھر والے اور این جی او یہ باتیں کر رہے تھے کہ ہمارے حق میں فیصلہ آئے گا انہوں نے آسیہ کو بے گناہ قراردینا ہی تھا اس لیے اس طرح کی باتیں کر رہے تھے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل داخل کرنی چاہئے، جو سقم رہ گئے انہیں بیان کرنا چاہئیے۔ وکیل ندیم ہاشمی نے کہا کہ معلوآسیہ کو 2 عدالتوں سے سزا ہوئی تھی سپریم کورٹ نے دونوں عدالتوں کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا حکومت کو چاہئیے کہ نظر ثانی کی اپیل داخل کرے اور آسیہ کو نظر بند کر دے جب تک نظر ثانی کی اپیل کا فیصلہ نہیں آ جاتا،یہ درست ہے کہ عدالت نے زمینی حقائق کو مد نظر نہیں رکھا ۔