شوہر نے صفائی میں انجیل پر قسم کھانے سے انکار کردیا تھا

0

لاہور( نجم الحسن عارف ) ملعونہ آسیہ کے خلاف کیس کے مدعی کے وکیل چوہدری غلام مصطفی ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اس کے باجود آسیہ مسیح کی اپیل منظورکر لی ہے کہ آسیہ مسیح کے حق میں اس کے شوہر عاشق مسیح نے بھی گواہی دینے اور اس کے حق میں انجیل پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ اس کی صفائی نہیں دے سکتا ، جبکہ آسیہ کے خلاف سات گواہ ٹرائل کورٹ میں پیش ہوئے اور ان تمام کے بیانات میں کوٗئی تضاد نہیں تھا۔دیہی ماحول کی خواتین نے بھی زندگی میں پہلی مرتبہ تھانے کچہری آ کر گواہی صرف اپنے نبی پاکؐ کی ناموس کے حق میں دی تھی کہ وہ اس کو دینی اور اخلاقی فریضہ سمجھتی تھیں۔’’امت‘‘ سے خصوصی گفتگو میں غلام مصطفی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اس کیس میں عام لوگوں نے انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیا اور کسی بھی موقع پر قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی نہ جذباتی ہوئے ،بلکہ تمام قانونی ذرائع استعمال کیے۔ جب آسیہ مسیح نے توہین رسالت کے علاوہ ام المومنین حضرت خدیجہؓ کا غلط حوالہ دیا اور قرآن پاک کی توہین کی تو اس موقع کی عینی گواہ خواتین نے گائوں کے امام مسجد قاری محمد سالم سے رابطہ کر کے ان کے سامنے سارا واقعہ رکھا ۔انہوں نے خواتین کا موقف سننے کے بعد متعلقہ زمیندار ادریس سے بھی رابطہ کیا اور بعدا زاں گائوں کی پنچایت بلائی گئی ،تاکہ کسی کے ساتھ بھی زیادتی نہ ہو۔ عینی شاہدین نے جہاں پنچایت کے سامنے اپنے موقف کا اعادہ کیا وہیں ۔آسیہ نے پنچایت کے سامنے اعتراف کیا کہ اس نے یہ غلطی کی ہے۔ تاہم اس نے کہا کہ اسے معاف کر دیا جائے۔ اس اعتراف کے باوجود گائوں میں کسی شخص نے قانون ہاتھ میں نہیں لیا بلکہ پولیس کو اطلاع کی گئی۔ پہلے ایس ایچ او کی سطح پر تفتیش ہوئی پھر ایس پی امین بخاری نے تحقیقات کی ۔ ایس پی کے سامنے بھی اس خاتون نے اپنے جرم کو تسلیم کیا اور اس کے خلاف ایس پی کے سامنے بھی گواہ پیش ہوئے۔ ایس پی نے اس مسیحی خاتون کو صفائی کا موقع دیتے ہوئے کہا جو کہنا چاہے کہہ لے نیز اگر کسی سے مدد لینا چاہے تو بھی لے سکتی ہے۔ اس پر اس کے شوہر عاشق مسیح کے علاوہ مسیحی لیگل ٹیم نے بھی اس کی طرف سے بات کی۔ لیکن ان کے پاس ملعونہ کے کھلے اعتراف کے بعد کوئی جواز نہ تھا۔ جب آسیہ کے شوہر سے کہا گیا کہ آیا وہ اپنی اہلیہ کے حق میں اپنی مقدس کتاب انجیل پر ہاتھ رکھ کے گواہی دینے کو تیار ہے توعاشق مسیح نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد پولیس نے چالان بنا کر کیس عدالت میں بھیج دیا۔جہاں تقریبا ایک سال تک سماعت ہوئی۔ پولیس چالان میں آسیہ مسیح کو قصور وار قرار دیا گیا کہ اس کے خلاف سات گواہ تھے اور اس کے حق میں کوئی موقع کا گواہ تھا نہ اس کے گھر والے نے اس کی بے گناہی کے لیے گواہی دی۔ عدالت میں بھی اس کے خلاف گواہیاں ہوئیں۔ خواتین گواہوں نے بھی گاؤں کی روایت سے ہٹ کر عدالت آ کر بھی گواہی دی، عدالت میں یہ بھی ثابت ہو ا کہ جس دن ملعونہ آسیہ مسیح نے توہین رسالت کی اس روز یہ اسی جگہ موجود تھی ،جس جگہ کا ایف آئی آر میں ذکر تھا ، گواہوں کی وہاں موجودگی بھی ثابت ہوئی۔ گواہوں کے بیانات پر جرح کا مرحلہ آیا تو بھی گواہوں کی گواہی کی کوئی کمزوری ثابت نہ ہوسکی بلکہ ایک سچی گواہی ہونےکے ناطے ہر طرح کے اعتراضات اور سوالات کا جواب گواہوں نے دیا۔ ملعونہ کے وکلا کو ناکامی ہوئی اور ٹرائل کورٹ نے آسیہ کے خلاف فیصلہ دے دیا۔بعدازاں ہائی کورٹ میں معاملہ گیا تو موجودہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ آسیہ کے وکلا میں شہباز حکومت کے صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق طاہر خلیل سندھو بھی شامل تھے۔ جج حضرات نے ملعونہ کے وکیلوں سے کہا آپ لوگوں نے ٹرائل کورٹ میں اس کا کوئی دفاع پیش ہی نہیں کیا ۔ اس صورت حال میں اس کے وکیلوں کی آپس میں ہی کھٹ پٹ ہو گئی۔ ایک سوال اس کے وکیلوں کی طرف سے اٹھایا گیا کہ آسیہ کے خلاف گواہوں کے معاملے میں تز کیۃ الشہود نہیں کیا گیا ۔ اس پر انہیں کہا گیا کہ یہ کیس حدود آرڈیننس کے تحت نہیں، بلکہ تعزیرات پاکستان کے تحت ہے ، اس میں تزکیۃ الشہودکی ضرورت نہیں ہوتی ۔ عدالت عالیہ نے آسیہ کے خلاف ساتوں گواہوں کے بیانات میں کوئی سقم یا کمزوری نہ دیکھی اور اس کی اپیل خارج کرتے ہوئے سزا برقرار رکھی۔ عدالت عالیہ میں آسیہ کے حق میں اس کے وکلا کوئی دلیل نہ لا سکے۔ اس کا مجرم ہونا عدالت عالیہ میں ثابت ہو گیا ،لیکن اب سپریم کورٹ نے انہی گواہان کے بیانات میں کمزوری تلاش کرلی ہے، یہ حیران کن ہے۔ نیز ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کا اعتراض کیا ، جبکہ سپریم کورٹ کے سامنے یہ بات کہی گئی کہ معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا تھا اور ایسی کوئی بڑی تاخیر بھی نہیں ہوئی ۔ ایسے کئی مقدمات میں اتنی تاخیر کو نظر انداز کیا جاتا رہاہے۔ لیکن آسیہ کے اعتراف جرم کے تین سو بیالیس کے تحت بیان کے باوجود اس کی سپریم کورٹ نے اپیل منظور کر لی ہے۔اب ہم اپنے قانونی حق کے استعمال کے لیے باہم مشورہ کریں گے کہ نظر ثانی کیلئے عدالت سے رابطہ کرنا ہے تو مزید کیا مطالبہ ہو سکتا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More