کراچی(رپورٹ:نواز بھٹو)نیو سندھ سیکرٹریٹ میں ایک مرتبہ پھر پر اسرار آگ بھڑک اٹھی۔جے آئی ٹی کو میگا منی لانڈرنگ اسکینڈل سے متعلق کرپشن کے تمام ریکارڈ کے جلانے کا خدشہ لاحق ہوگیا۔آگ نیو سندھ سیکرٹریٹ کے ورکس ڈیپارٹمنٹ میں جمعرات کی صبح لگی، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ملحقہ کمروں کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔ قیمتی سامان اور اہم دستاویزات جل گئیں۔فائر بریگیڈ کو ریکارڈ جلنے کے بعد طلب کیا گیا۔اس سے قبل نیب کی جانب سے کرپشن کی تحقیقات کے سلسلے میں ریکارڈ مانگنے پر محکمہ اطلاعات اور اس کے بعد نیو سندھ سیکریٹریٹ کے چوتھی و پانچویں منزل پر ریکارڈ جلا دیا گیا تھا، جس کی تحقیقاتی رپورٹ کو تاحال منظر عام پر آنے نہیں دیا گیا۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے واضح احکامات اور حکومت سندھ کی تمام یقین دہانیوں کے باوجود جے آئی ٹی کو مطلوب 500سے زائد ٹھیکیداروں سے متعلق ریکارڈ فراہم نہیں کیا جاسکا ہے۔ان ٹھیکیداروں کو غیر قانونی طریقے سے اربوں روپے کے ٹھیکے دیے گئے اور ان کو جعلی اکائونٹس کے ذریعے بیرون ملک رقوم بھجوائی گئیں۔ذرائع کے مطابق ریکارڈ کی فراہمی میں عدم تعاون پر جے آئی ٹی کی طرف سے سپریم کورٹ میں تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی۔26اکتوبر کو حکومت سندھ نے سپریم کورٹ کو ریکارڈ کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی تھی۔تمام یقین دہانیوں کے باوجود جب ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا، تو چیف سیکریٹری کی جانب سے ماتحت محکموں کو واضح ہدایات جاری کی گئیں کہ ریکارڈ کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، جس پر جمعرات کی صبح 9بجے سندھ سیکرٹریٹ کے گراؤنڈ فلور پر پی ڈبلیو ڈی کے کیمپ آفس کے اسٹور روم میں اچانک آگ بھڑک اٹھی،جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ورکس اینڈ سروسز کے دیگر ملحقہ دفاتر کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔آگ لگنے سے قیمتی سامان اور کئی اہم دستاویزات جل گئیں، جس کی وجہ سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جے آئی ٹی کو مطلوب اومنی گروپ سے متعلق میگا منی لانڈرنگ اسکینڈل کا غیر قانونی ٹھیکوں سے متعلق تمام ریکارڈ جل گیا ہے۔فائر بریگیڈ کے عملے نے ایک گھنٹے میں آگ پر قابو پالیا۔ذرائع کے مطابق یہ بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ فائر بریگیڈ کو کافی تاخیر سے طلب کیا گیا۔عملے کے پہنچنے تک مکمل ریکارڈ جل چکا تھا۔حکومت سندھ کے حکام واقعہ کو معمولی واقعہ قرار دے رہے ہیں۔واضح رہے کہ ریکارڈ کے حصول کے لئے جب جے آئی ٹی کی طرف سے حکومت سندھ پر دباؤ بڑھا دیا گیا، تو حکومت سندھ دباؤ کا شکار ہوگئی اور حکمراں جماعت کی طرف سے 6 محکموں کے سیکریٹریز کو میگا منی لانڈرنگ اسکینڈل کی تحقیقات کے سلسلے میں ریکارڈ چھپانے کا خصوصی ٹاسک سونپا گیا تھا۔منی لانڈرنگ میں ملوث ملزمان کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر ثبوتوں کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی اور ریکارڈ میں ہیر پھیر کی گئی۔اربوں روپے کے ٹھیکوں کا ریکارڈ گم کر نے کا عذر پیش کیا جاتا رہا۔دوسری جانب جے آئی ٹی نے اس سلسلے میں 50ٹھیکیداروں کو طلب کر کے ان سے تفتیش کی، جس میں بیشتر ٹھیکیداروں نے درست معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا تھا،جب کہ اس سے قبل گزشتہ سال محکمہ اطلاعات سندھ میں بھی نیب کی طرف سے کرپشن کے ثبوت طلب کرنے پر شعبہ اشتہارات میں آگ لگا دی گئی تھی۔نیو سندھ سیکرٹریٹ میں گزشتہ 6ماہ میں آگ لگنے کا یہ دوسرا واقعہ ہے ۔ابھی تک اس کی تحقیقات کے احکامات جاری کرنے کے بجائے اس کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس سے قبل رواں سال 24فروری کو بھی سندھ سیکریٹریٹ کی چوتھی اور پانچویں منزل پر آگ لگی تھی، جس کے باعث اہم ریکارڈ جل گیا تھا۔یہ واقعہ بھی اس وقت پیش آیا تھا، جب نیب حکام کی طرف سے کرپشن کیسز کی تحقیقات کے سلسلے میں ریکارڈ کے حصول کے لئے حکومت سندھ پر دباؤ ڈالا تھا۔اس واقعہ کی سیکریٹری سی ٹی سی محسن شاہ نے ایک ماہ تک تحقیقات کی، جس میں سیکشن افسر سی ٹی سی، ڈپٹی سیکریٹری بجٹ اور سیکیورٹی آفیسر سمیت متعدد حکام پر ذمہ داری عائد کی گئی تھی۔ سابق سیکریٹری سی ٹی سی محسن شاہ نے امت کو بتایا کہ انہوں نے رپورٹ جمع کروا دی تھی، جس میں ذمہ داروں کا بھی تعین کیا گیا تھا اور جامع اصلاحات بھی تجویز کی گئی تھیں۔وہ رپورٹ کہاں گئی اس کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتے، جب ان سے ذمہ داروں سے متعلق دریافت کیا گیا، تو انہوں نے کہا کہ اس وقت انہیں کچھ یاد نہیں ہے۔اس لئے وہ کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں۔البتہ انہوں نے رپورٹ اس وقت کے چیف سیکریٹری کے سپرد کی تھی، جنہوں نے سیکریٹری جی اے کو ارسال کی تھی۔اس کے بعد کیا ہوا وہ کچھ نہیں جانتے۔اس سلسلے میں جب سیکریٹری ورکس اینڈ سروسز جنرل ایڈمنسٹریشن سجاد عباسی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، تو ان کا نمبر بند تھا۔