امریکہ نے پاکستان سے 40 گستاخوں کی رہائی کا مطالبہ کردیا
واشنگٹن/لندن(مانیٹرنگ ڈیسک)امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ توہین رسالت کے جرم میں قید 40افراد کو رہا کیا جائے اور آسیہ بی بی کی حفاظت یقینی بنائی جائے جبکہ برطانیہ نے بھی آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کو جرات مندانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سزائے موت کا قانون ختم کرے،امریکہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) نے سپریم کورٹ کی جانب سے توہین رسالت کیس میں آسیہ بی بی کی سزائے موت کالعدم قرار دینے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ توہین مذہب کے الزام میں گرفتار دیگر ملزمان کو رہا کیا جائے۔یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ ان کے دفاع کے دوران پاکستانی حکومت کے دوعہدیداروں شہباز بھٹی اور سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا۔امریکہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن کے چیئرمین ٹینزن ڈورجی نے الزام لگایا کہ آسیہ بی بی کا کیس واضح کرتا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین کو کس حد تک اقلیتی برادری کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ ان قوانین کا مقصد فرد کے بجائے پورے مذہب کی حفاظت کرنا ہونا چاہیے انھوں نےکہا اس کیس کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار کے مطابق ہونا چاہیے تھا ۔انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی تشویشناک بات تھی کہ آسیہ بی بی کا کیس اس حد تک پہنچا اور وہ پاکستان کی تاریخ میں توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت پانے والی پہلی خاتون بن گئی، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد پیش آنے والی صورتحال پر یو ایس سی آئی آر ایف نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ آسیہ بی بی کی رہائی پر ان کی حفاظت یقینی بنائیں،بیان میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ قادیانی عبدالشکور سمیت توہین مذہب کے الزام میں قید 40 افراد کو رہا کیا جائے اور توہین رسالت کے قانون کو تبدیل کیا جائے، واضح رہے کہ 2002 سے ہر سال یو ایس سی آئی آر ایف کی جانب سے یہ سفارش کی جاتی ہے کہ ’مذہبی آزادی کی خلاف ورزی‘ پر پاکستان کو ’خاص تشویشناک ملک‘ قرار دیا جائے۔اس کے علاوہ یو ایس آئی آر ایف کی جانب سے یہ بھی مطالبہ سامنے آتا رہا ہے کہ ’مذہبی آزادی کی خلاف ورزی‘ کے ذمہ دار لوگوں کے اثاثے منجمد اور ویزے منسوخ کیے جائیں۔دوسری جانب آسیہ بی بی کی بریت کی بازگشت برطانوی پارلیمنٹ تک بھی پہنچ گئی۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق وقفہ سوالات کے درمیان برطانوی وزیر اعظم تھریسامے سے اس فیصلے کو تسلیم اور تعریف کرنے سے متعلق سوال پوچھا گیا۔برطانوی رکن پارلیمنٹ نے وزیر اعظم تھریسامے سے پوچھا کہ کیا وزیر اعظم تھریسامے پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے مسیحی خاتون اور 5 بچوں کی والدہ آسیہ بی بی،جس نے پانی پینے کے معاملے پر پیدا ہونے والے تنازع کے نتیجے میں توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت کا سامنا کرتے ہوئے 8 سال جیل میں گزارے، اس کی سزا کالعدم قرار دینے کو خوش آمدید کہیں گی اور کیا وزیر اعظم، پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جرأت اور بہادری اور انصاف کی فراہمی قائم کرنے اور آسیہ بی بی کی رہائی سے تمام عقائد کے لیے مذہبی آزادی کے بھیجے گئے پیغام کی تعریف کریں گی؟اس پر برطانوی وزیر اعظم نے جواب دیا کہ ’پاکستان سے آنے والی آسیہ بی بی کی رہائی کی خبر کا ان کے اہل خانہ اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں ان کی رہائی کی مہم چلانے والوں کی جانب سے خیر مقدم کیا جانا چاہیے‘۔انہوں نے کہا کہ ’سزائے موت پر ہمارا ٹھوس مؤقف سب جانتے ہیں اور ہم عالمی سطح پر اس کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔