نجم الحسن عارف
ملعونہ آسیہ کیخلاف توہین رسالت کے کیس میں مدعی کے وکیل غلام مصطفی چوہدری ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ آسیہ بی بی کے خلاف پیش ہونے والے کسی گواہ نے ملزمہ کے حق میں شہادت نہیں دی۔ حتیٰ کہ ملزمہ کے شوہر عاشق مسیح نے بھی اس کے حق میں گواہی دینے سے انکار کر دیا تھا اور انجیل پر حلف نہیں لیا۔ مدعی کے وکیل کے مطابق، یہ اعتراض اٹھانا کہ پچیس تیس افراد میں سے صرف سات گواہ پیش کئے گئے، تو قانون کا قطعاً یہ تقاضا نہیں ہوتا کہ کسی وقوعے پر موجود سبھی لوگوں کو بطور گواہ پیش کیا جائے۔ پھر پیش ہونے والے گواہوں کے معمولی تضادات کو بھی ریلیف دینے کیلئے جواز بنایاگیا۔ اضافی نوٹ میں فاضل جج نے ایف آئی آر کے اندراج میں پانچ دن کی تاخیر کو بھی اس امر پر محمول کیا ہے، کہ منصوبہ بندی کے تحت ایف آئی آر درج کرانا تھی۔ دوسری جانب سابق آئی جی طاہر عالم کا کہنا ہے کہ 259 سی کا کیس انتہائی حساس ہوتا ہے۔ ایسے معاملے میں کہیں جذباتیت آجاتی ہے تو کہیں سیاست۔ اس لئے 259 سی کے مقدمے میں تاخیر غیر معمولی بات نہیں۔ننکانہ کے ایک گاؤں سے توہین رسالت کے سنگین جرم میں گرفتار ہوکر سیشن کورٹ اور بعد ازاں ہائی کورٹ سے سزائے موت کی مستحق قرار پانے والی آسیہ مسیح کو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے بری قرار دے دیا ہے۔ ستاون صفحات پر مشتمل فیصلے میں تین رکنی بینچ کے فاضل جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بطور خاص اپنے نوٹ میں دلائل پیش کئے ہیں۔ جن میں سب سے اہم نکتہ آسیہ کے خلاف پیش ہونے والے گواہوں کی گواہیوں میں پائے گئے تضادات کا ذکر ہے۔ جبکہ اس کیس میں پیش ہونے والے تمام گواہوں کے بیان سے جرم ثابت ہے اور خود ملزمہ آسیہ بی بی بھی اپنے جرم سے انکاری نہیں ہے۔ وہ نہ صرف پنچایت میں اپنی آمد اور شمولیت کو مانتی ہے، بلکہ یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ اس نے اعترافی بیان بھی دیا۔ جن حقائق کا اعتراف ملزمہ آسیہ بی بی نے برسر پنچایت کیا، یہ وہی حقائق تھے، جن کا گاؤں کی بعض خواتین نے اس پر الزام لگایا تھا۔ اور یہ وہی حقائق تھے، جن کا اظہار پولیس تفتیش میں کیا گیا اور وہ مقدے کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ نیز تمام گواہوں کا اصل کیس میں موقف کلی طور پر یکساں رہا۔ تاہم فاضل عدالت کے فیصلے کے صفحہ 53 پر بیان کیا گیا ہے… ’’غور و فکر کے بعد جو پانچ طویل دنوں کے عرصے پر محیط تھا، یہ فیصلہ کیا گیا کہ توہین مذہب کا غلط الزام لگایا گیا‘‘۔ فیصلے میں اس کے ساتھ ہی لکھا گیا ہے کہ ’’اگر ایسا تھا تو تب بھی مسلمان گواہوں نے نبی اکرمؐ کے عیسائیوں کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے‘‘۔ اس معاہدے کا حوالہ فاضل عدالت کی جانب سے اینگلیکو پریس کی 2013ء میں طبع شدہ کتاب ’حضرت محمدؐ کے دنیا کے عیسائیوں کے ساتھ معاہدات‘ سے دیا گیا ہے۔
دوسری جانب مقدمے کے مدعی کے وکیل غلام مصطفیٰ چوہدری ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ’’جب ملزمہ آسیہ کو پولیس نے گرفتار کیا تو پولیس نے قانون کے مطابق مجسٹریٹ کے سامنے اسے پیش کرتے ہوئے اس کا طبی معائنہ کرانے کی درخواست کی۔ لیکن ملزمہ نے طبی معائنہ کرانے سے انکار کر دیا۔ اگر ملزمہ پر کوئی تشدد کیا گیا ہوتا یا دبائو ڈالا گیا ہوتا تو طبی معائنے میں اس کا اندازہ کسی قدر تو ممکن تھا۔ لیکن ملزمہ نے ایسے دبائو کی شکایت کی نہ طبی معائنے کا اپنا حق استعمال کیا۔ ملزمہ نے پنچایت کے سامنے جو اعتراف کیا، گرفتاری کے بعد پہلے تفتیشی افسر کے سامنے بھی اسی اعتراف کو دہرایا۔ لیکن بعد ازاں جب حکام کی طرف سے ہدایت آئی کہ سینئر پولیس افسر تفتیش کرے تو ایس ایس پی امین بخاری نے جیل میں ملزمہ سے تفتیش کی۔ مسیحی لیگی ٹیم کے مشورے پر مسلمان ہونے کے لئے خواتین کے دبائو کو بھی موقف میں شامل کیا گیا۔ لیکن ایس پی کے مطابق یہ بات غلط ہے۔ ایسے حقائق نہیں۔ اسی طرح اس کے خاوند عاشق مسیح کا اپنی ملزمہ بیوی کے حق میں انجیل مقدس پر حلف دینے سے انکار بھی تفتیش بتوسط ایس ایس پی امین بخاری ریکارڈ میں موجود ہے۔ غلام مصطفیٰ چوہدری ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ کو مزید بتایا کہ ’’ایک طرف ملزمہ آسیہ نے عدالت میں اپنے حق میں کوئی موقع کا گواہ پیش کیا اور نہ ہی خود ملزمہ کے طور پر قانون میں 340 کی ذیلی شق 2 کے ضابطہ فوجداری کے تحت اپنے حق میں گواہی دینے کا حق استعمال کرنا پسند کیا۔ اگرچہ عدالت نے اسے پورا موقع دیا تھا۔ ملزمہ کے موقف میں قدرے تبدیلی اس وقت دیکھنے میں آئی جب مسیحی این جی او کی لیگل ٹیم نے اسے کہا کہ یہ کہہ دو کہ مسلم خواتین مجھے زبردستی مسلمان کرنا چاہتی تھیں۔ میں نے انکار کیا تو وہ خواتین ناراض ہو گئیں‘‘۔ غلام مصطی ایڈووکیٹ نے ایک سوال پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’جہاں تک اس اٹھائے گئے اعتراض کا تعلق ہے کہ پچیس تیس افراد میں سے صرف سات گواہ پیش کئے گئے۔ تو قانون کا قطعاً یہ تقاضا نہیں ہوتا کہ کسی وقوعے پر موجود سبھی لوگوں کو بطور گواہ پیش کیا جائے۔ سات پیش ہونے والے گواہوں کی تعداد کسی بھی قانونی تقاضے کے حوالے سے کم نہیں تھی۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ سارے لوگ تو تھے، لیکن ان میں کسی ایک نے بھی ملزمہ کے حق میں گواہی نہیں دی۔ نہ ہی ملزمہ نے کسی کو اپنی طرف سے گواہ کے طور پر عدالت میں پیش کرنے کی ہمت کی۔ ملزمہ پر حالانکہ کوئی ایسی قدغن نہیں تھی۔ حتیٰ کہ عدالت بھی چاہتی تو کسی کو بھی بلا سکتی تھی۔ اس لئے ملزمہ کے حق میں گواہ کا نہ پیش ہونا مدعی کی غلطی کیسے کہی جا سکتی ہے۔ جس ملزمہ کا اپنا شوہر ہی اس کے حق میں گواہی دینے کو تیار نہ تھا، اس کے حق میں کوئی اور کیسے گواہی دیتا۔ چوبیس صفحے پر محیط الگ تحریر کردہ اضافی نوٹ میں فاضل جج نے ایف آئی آر کے اندراج میں پانچ دن کی تاخیر کو بھی اس امر پر محمول کیا کہ تاخیر کا مقصد منصوبی بندی کے تحت ایف آئی آر درج کرانا تھی‘‘۔
ایف آئی آر کے بروقت یا تاخیر سے اندراج کے ایشو پر ’’امت‘‘ نے سابق آئی جی پولیس طاہر عالم خان سے رائے طلب کی۔ سابق آئی جی نے کہا کہ پولیس کے لئے حکم ہے کہ وہ مقدمہ فوری درج کرے۔ قانونی طور پر پولیس خود ایف آئی آر درج کرنے کی پابند ہے، جیسے چوری و ڈاکے کی ایف آئی آر عام طور پر فوری درج کر لی جاتی ہے۔ لیکن معاملہ ایسا ہو کہ کسی فریق نے چوری ڈاکے کی ایف آئی آر اپنے ہی ہمسائے کے خلاف درج کرانا ہو اور اس ہمسائے کی شہرت ماضی میں ایسے جرائم میں ملوث ہونے کی نہ رہی ہو تو پولیس عام طور پر اپنے انداز میں معاملے کی تفتیش میں تھوڑا وقت لے لیتی ہے۔ 295 سی کا مقدمہ تو بڑا حساس معاملہ ہوتا ہے۔ ایک طرف عام طور پر اقلیتیں ہوتی ہیں اور دوسری جانب مولوی حضرات ہوتے ہیں۔ اس میں بعض اوقات جذباتیت ہوتی ہے تو کبھی سیاست بھی آ جاتی ہے۔ ایسے معاملات میں پولیس کو اندازہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کے خلاف 295-C کے تحت مقدمہ درج ہو گیا تو اس کے لئے سزائے موت ہو گی یا مکمل بریت ہوگی۔ اس لئے پولیس اپنے طور پر بھی انکوائری کی کوشش کرتی ہے۔ اگرچہ پولیس کو قانون میں خود تفتیش کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ پولیس کے مقابلے میں ایف آئی اے، اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ اور نیب کو مقدمہ درج کرنے سے پہلے اپنے طور پر تفتیش کرنے کا اختیار قانون میں موجود ہے۔ ایک سوال کے جواب میں طاہر عالم کا کہنا تھا کہ ’’ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر سے عدالت یہ تاثر لیتی ہے کہ اس میں مدعی فریق نے ’’سیکنڈ تھاٹ‘‘ شامل کر لیا ہے۔ یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات مدعی پارٹی تھانے کے چکر لگاتی ہے، لیکن پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرتی ہے۔ 295 سی کے مقدمات میں پولیس بطور خاص کوشش کرتی ہے کہ بلا وجہ کسی فریق کو نشانہ نہ بنایا جا رہا ہو۔ اس لئے تفتیش اور جائزے کا عمل ایف آئی آر سے پہلے شروع کر دیا جاتا ہے‘‘۔
ادھر اسلام آباد میں بطور ایس ایس پی آپریشنز تعینات سید امین بخاری سے ’’امت‘‘ نے رابطہ کیا اور سوال کیا کہ ’’آپ نے بطور تفتیشی افسر کیا واقعی کچھ پہلوئووں کو نظر انداز کر دیا تھا، جیسا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا ہے؟‘‘۔ اس پر سید امین بخاری نے کہا کہ ’’عدالت اس بارے میں فیصلہ دے چکی ہے۔ میں کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتا، جس سے توہین عدالت کا تاثر ابھرے۔ ویسے بھی یہ 9 سال پرانا معاملہ ہے‘‘۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا ’’میں اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا کہ تفتیش کیسے اور کیسی ہوئی۔ میں اس بارے میں معذرت چاہتا ہوں‘‘۔
Next Post