گزشتہ روز لاہور کی تمام اہم شاہراہیں ’’لبیک یا رسول اللہؐ‘‘ کے نعروں سے گونجتی رہیں۔ شہر کے سب سے اہم مرکز چیئرنگ کراس پر تحریک لبیک پاکستان کے امیر علامہ خادم حسین رضوی کے زیر قیادت دھرنا تیسرے روز بھی جاری رہا۔ پرجوش عاشقان رسول نے نماز جمعہ مال روڈ پر ہی ادا کی۔ اس موقع پر زبردست نظم و ضبط دیکھنے میں آیا۔ گزشتہ روز تحریک لبیک کی طرف سے شٹر ڈائون ہڑتال کی اپیل بھی کامیاب رہی اور تمام بڑی مارکیٹیں و بازار بند رہے۔ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر مسلسل احتجاج کی وجہ سے شہر میں پیٹرولیم مصنوعات کی قلت کی شکایات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ جبکہ شہر میں تعلیمی اداروں کی اکثریت کو جمعرات کے روز ہی بند کر دیا گیا تھا۔
ملک بھر کی طرح پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے خلاف شروع ہونے والی احتجاجی تحریک تیسرے روز شدت پکڑ گئی۔ تحریک لبیک پاکستان کے علاوہ دوسری دینی جماعتوں کے کارکنوں نے بھی جمعہ کے روز بطور خاص احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں میں حصہ لیا۔ شہر بھر کی مساجد میں علما اور خطیب حضرات نے تحفظ ناموس رسالت کے عزم کو اجاگر کرنے کے لیے خطابات کئے۔ تحریک لبیک کے امیر علامہ خادم حسین رضوی نے چیئرنگ کراس پر جاری دھرنے کے شرکا کے ساتھ نماز جمعہ ادا کی اور خطبہ جمعہ دیا۔ شہر میں تحریک لبیک کی حکمت عملی کے تحت دو درجن سے زائد مقامات پر احتجاجی دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں سلسلہ جاری رہا۔ جس کی وجہ سے شہر میں آنے اور شہر سے جانے والی ٹریفک کا نظام معطل رہا۔ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ بند رہی۔ میٹرو بس اور اسپیڈو بس سروس کی خدمات بھی مسلسل تیسرے روز بند رہیں۔ جبکہ مظاہرین نے شاہدرہ موڑ، ٹھوکر نیاز بیگ، چونگی امرسدھو سمیت شہر کے داخلی راستوں کو اپنے دھرنوں اور کھڑی کی گئی رکاوٹوں سے بند کئے رکھا۔ دفاتر میں حاضری بھی متاثر رہی اور ملازمین کی بہت بڑی تعداد سرکاری و نجی دفاتر میں ٹرانسپورٹ کی بندش اور راستوں کے کھلے نہ ہونے کی وجہ سے نہ پہنچ سکی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلے ایک دو روز میں بھی یہ احتجاج اسی شدومد سے جاری رہا تو شہر میں سبزیوں اور پھلوں کی ترسیل کے علاوہ دودھ کی فراہمی پر بھی منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ جبکہ شہر کے مختلف حصوں میں پیٹرول کی کمی کی شکایات سامنے آئی ہیں۔
ادھر مال روڈ پر احتجاجی دھرنے میں اس کے باوجود جمعہ کے روز بھی ہزاروں افراد شریک رہے کہ گزشتہ دو دنوں میں حکومت کی طرف سے مذاکرات کرنے کے لیے ٹیم بنا کر مذہبی قائدین کے ساتھ بات چیت شروع ہونے کا تاثر دے رہی ہے۔ نیز شرکا کو دھمکانے کے علاوہ رنگ برنگی افواہوں کا بھی سلسلہ دو دن سے جاری ہے۔ اسی ماحول میں سرپرست اعلیٰ تحریک لبیک پیر افضل قادری کے حوالے سے ایک تقریر میں کہا گیا تھا کہ ان کا حکومتی وفد کے ساتھ مذاکرات میں ڈیڈلاک پیدا ہو گیا ہے۔ ان کے بقول وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری، حساس ادارے کے ذمہ دار جنرل فیض، صوبائی وزیر قانون، صوبائی وزیر اوقاف، ہوم سیکریٹری اور دیگر سرکاری حکام حکومتی ٹیم کی طرف سے مذاکرات میں شریک تھے۔ پیر افضل قادری کے دعوے کے مطابق مذاکرات میں انہیں حکومتی نمائندوں کی طرف سے دھمکی دی گئی کہ آپ لوگوں کو بھون دیا جائے گا۔ پیر افضل قادری کے مطابق اب ڈیڈ لاک پیدا ہو چکا ہے۔ دوسری جانب لاہور میں موبائل فون کمپنیوں کی سروس جمعرات کے بعد جمعہ کے روز بھی بند رکھی گئی۔ شام ساڑھے پانچ بجے کے بعد البتہ جزوی طور پر موبائل فون سروس تھوڑی دیر کے لیے بحال کی گئی۔ لیکن بعد ازاں یہ سلسلہ پھر رک گیا اور شہر کے لوگوں کا باہمی رابطہ منقطع رہا۔ حتیٰ کہ گھر سے باہر گئے افراد کے ساتھ اہل خانہ کا رابطہ بھی تعطل کا شکار رہا۔ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب کے دوران جب مال روڈ پر دھرنا جاری تھا تو دھرنے کی پہلی شب کی طرح دوسری شب بھی آپریشن کی افواہیں پھیلائی جاتی رہیں۔ تاہم دھرنے کے منتظمین کی طرف سے شرکا کو ہدایت کی جاتی رہی کہ وہ ان افواہوں پر کان نہ دھریں۔ جمعہ کے روز علی الصبح سوا دو بجے کے قریب ایک مرتبہ پھر یہ افواہیں شدت پکڑ گئیں تو مال روڈ سمیت مختلف چوراہوں پر بیٹھے لوگوں کو یہ پیغامات دیئے گئے کہ قیادت کا کہنا ہے کہ کسی بھی صورت پولیس کے ہاتھ نہیں آنا ہے۔ اس موقع پر بعض چوراہوں پر اینٹوں اور پتھروں کی بھی بڑی مقدار جمع کر لی گئی تھی اور چوراہوں پر ٹرک اور ٹرالیاں وغیرہ کھڑی کر کے رکاوٹین بنائی گئی تھیں۔ ان رکاوٹوں کے ساتھ ہی تحریک لبیک کے متحرک کارکن بڑی تعداد میں موجود تھے۔ جبکہ موٹر سائیکل سوار کارکنوں کی رات بھر مختلف چوراہوں کے آس پاس گشت جاری رہی۔
مال روڈ پر دھرنے کے منتظمین کی طرف سے دوپہر 2 بجے ’’لبیک یارسول اللہ کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر ناموس رسالت کے لیے ہر قیمت اور ہر صورت میں احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ علامہ خادم حسین رضوی نے کہا کہ ’’ہم ریاست کو بچانے کے لیے جمع ہیں۔ کیونکہ ناموس رسالت کے تحفظ سے ہی ریاست کا تحفظ یقینی ہو گا‘‘۔ اس کانفرنس کے دوران شرکا میں جوش و خروش فراواں رہا، لیکن کہیں بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ شرکا جن کی بڑی تعداد لاہور کے شہریوں پر ہی مشتمل ہے، کے لیے رضاکارانہ طور پر شہری انواع و اقسام کے کھانوں، جوسز اور مشروبات کا انتظام کرتے رہے۔ جبکہ سارا دن شہر کی اہم شاہراہیں لبیک لبیک یا رسول اللہؐ کے نعروں سے گونجتی رہیں۔