سپریم کورٹ میں سواتی کامعافی نامہ مسترد۔جے آئی ٹی تشکیل
اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )عدالت نے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کامعافی نامہ مستردکردیاہے اور ان کے مس کنڈکٹ کی تحقیقات کے لیے سینئر افسران پر مشتمل جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا اور کہا کہ کمیٹی 14 روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔ عدالتی حکم پر جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی جس کے سربراہ عرفان منگی ہوں گے جبکہ احمدرضوان اورمیرواعظ نیازارکان ہوں گے ۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے کہاہے کہ غریب پر ظلم ہوگا تو ہم چپ نہیں رہیں گے،عدالت نے کہا کہ سواتی عہدے سے مستعفی ہوں۔ ازخودنوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ عدالت میں اسلام آباد پولیس کے سربراہ جان محمد اور وفاقی وزیر اعظم سواتی پیش ہوئے۔ وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ اعظم سواتی معافی مانگ رہے ہیں اور انہوں نے تحریری معافی نامہ جمع کرا دیا ہے، میرا موکل شرمندہ ہے، عدالت سے معافی مانگتا ہے، اگر موکل شرمندہ نہ ہوتا تو معافی نہ مانگتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر آپ ہر بڑی شخصیت کی طرف سے عدالت میں پیش ہونے آجاتے ہیں، یہ بتائیں کہ آپ کا لائسنس کتنے دنوں کیلیے معطل کروں۔ بیرسٹر علی ظفر نے مسکراتے ہوئے کہا دو ماہ کے لیے کینسل کردیں ۔ چیف جسٹس نے کہا ہر ناجائز کام کرنے والے کی طرف سے آپ پیش ہوجاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس معاملے پر جے آئی ٹی تشکیل دے رہے ہیں، جے آئی ٹی میں نیب،آئی بی اور ایف آئی اے کے بہترین افسران شامل کریں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں آرٹیکل 62ون ایف کا جائزہ بھی لیں گے، ہم پارلیمنٹ کی بے حد عزت کرتے ہیں لیکن طاقت و اختیار کا اس طرح استعمال نہیں ہونے دیں گے، کسی جرگے کی صلح صفائی کو ہم نہیں مانتے چیف جسٹس نے آئی جی جان محمد سے پوچھا کہ آئی جی صاحب بتائیں آپ نے پرچہ درج کیوں نہیں کیا۔ آئی جی جان محمد نے جواب دیا کہ میں ملک سے باہر تھا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اس معاملے میں دوسرا پرچہ درج ہو سکتا ہے، اگر ہوسکتا ہے تو آج ہی درج کریں۔ چیف جسٹس نے اعظم سواتی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ان کے ساتھ وہ سلوک کریں جو عام شہری کے ساتھ ہوتا ہے، یہی رول آف لا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اعظم سواتی کی جائیداد کے باہر باڑ لگانے کی تحقیقات کرائیں گے، یہ ذہن میں رکھیں اس ملک کو چلانے کے لیے ایماندار لوگ چاہئیں۔ اعظم سواتی کے اثر و رسوخ کا شکار متاثرہ خاندان بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔ متاثرہ شخص نیاز محمد نے کہا کہ میں غریب بندہ ہوں، ظلم ہوا لیکن میں نے پاکستان کے ناطے اعظم سواتی کو معاف کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے معاف کردیا تو کریں، ہم تحقیقات کریں گے، جس نے میرے خلاف مظاہرہ کرنا ہے وہ کرے، غریبوں کو دبا دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کہاں ہے سی ڈی اے والے جنہوں نے زمین پر اعظم سواتی کی قبضے کی زمین پر نوٹس نہیں لیا۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد طارق جہانگیری نے کہا کہ متاثرہ خاندان صلح نامے کی بنیاد پر ضمانت پر رہا ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اعظم سواتی کو اتنا غصہ ہے کہ آئی جی تبدیل کرا دیا، فریقین کے درمیان صلح ہوگئی ہے لیکن یہ جرم ریاست کیخلاف ہے۔ اعظم سواتی کے وکیل نے کہا کہ اسلامی قوانین کے مطابق صلح ہوجائے تو معافی ہو جاتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ تعالی نے اسلامی اصولوں کا بہت بڑا نایاب تحفہ دیا ہے، جہاں کچھ نہیں ہوتا وہاں اسلامی اصولوں کو استعمال کیا جاتا ہے، غریب پر ظلم ہوگا تو ہم چپ نہیں رہیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح فون کالز پر کارروائیاں نہیں ہونی چاہئیں، اس طرح پولیس افسروں کی عزت خراب کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کون سے پولیس والے تھے جنہوں نے اعظم سواتی کیخلاف پرچہ نہیں کاٹا۔ شہزاد ٹاوٴن کے ڈی ایس پی نے کہا کہ میرے آفس میں کوئی بھی درخواست نہیں آئی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ سی ڈی اے والے بتائیں کہ کس نے خاردار تاریں لگائیں؟۔ وکیل نے جواب دیا کہ قانون کے مطابق سی ڈی اے کی حدود میں تاریں لگی ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ماں باپ اور بچوں کو پکڑ کر اندر کرادیا جائے؟ کیا متاثرہ فیملی ان کے مقابلے کے لوگ تھے، ایسے لوگ ملک چلائیں گے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بطور قاضی ایسے لوگوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کمرہ عدالت میں اعظم سواتی کی ویڈیو بھی دکھائی جائے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ چلیں کیس میں تفتیش کو رہنے دیں، آرٹیکل 62 ون ایف کااطلاق کر دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وضاحت کریں کیوں نہ اعظم سواتی کو نااہل کر دیں، نیک پارسا،صادق اور امین سے متعلق عدالتی فیصلے موجود ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ جس طریقے سے تبادلہ ہوا اس پر عدالتی کارروائی جاری رہے گی۔ آئی جی کے تبادلے میں اثر و رسوخ کی تحقیقات کیلئے تین رکنی جے آئی ٹی بھی تشکیل دے دی گئی جو دو ہفتوں میں رپورٹ دے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہر کیس میں آئی ایس آئی کو نہیں ڈالنا چاہتا، دیگر متعلقہ اداروں سے انکوائری کرائیں گے۔ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان منگی کو جے آئی ٹی میں شامل کردیا گیا اور سینئر ہونے کے ناطے وہی جے آئی ٹی کی سربراہی بھی کریں گے، تحقیقاتی ٹیم میں آئی بی کے احمد رضوان اور ایف آئی اے کے میر واعظ نیاز بھی شامل ہیں۔