اسلام آباد (وجیہہ احمد صدیقی) مولانا سمیع الحق کو کس نے شہید کیا، اس کا علم تو شاید ہی ہوسکے، لیکن یہ ضرور ہے کہ ان کی شہادت سے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ایک معتبر رابطہ ختم ہوگیا ہے، جس کا نقصان پاکستان کو ہی ہوگا۔ مولانا سمیع الحق شہید کا یہ پختہ موقف تھا کہ جب تک امریکہ اور دیگر قابض افواج افغانستان میں موجود ہیں، خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ان کا کہنا تھا افغانستان کی قسمت کا فیصلہ افغانوں کو کرنا چاہیے، امریکہ، پاکستان، ایران یا روس کو ان کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ایک بین الاقوامی سازش کے تحت پاکستان سے ایسے تمام رہنمائوں کو ہٹایا جارہا ہے، جو امریکی ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ امریکہ نے افغان حکومت کے ذریعے مولانا سمیع الحق پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ آج سے تقریباً ایک ماہ پہلے افغان حکومت نے مولانا سمیع الحق سے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ثالث بننے کی درخواست کی تھی، جسے مولانا سمیع الحق نے رد کردیا تھا اور کہا تھا کہ امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کی وجہ سے یہ کردار خوش اسلوبی سے نہیں ادا کرسکتا۔ افغان حکومت کی طرف سے آئے ہوئے ایک اعلیٰ سطح سرکاری وفد نے ان سے یکم اکتوبر 2018کو اکوڑہ خٹک میں ملاقات کی تھی۔ یہ ملاقات دو ڈھائی گھنٹے تک جاری رہی۔وفد میں افغانستان میں مختلف جماعتوں کے سرکردہ حکومتی افراد اور اہم علما شامل تھے، جن میں سے بعض علما جامعہ حقانیہ سے فارغ اور مولانا سمیع الحق کے شاگرد بھی رہ چکے تھے۔پاکستان میں افغان سفارتخانہ کے سفارتکار بھی اس ملاقات میں شریک تھے، وفد نے مولانا سمیع الحق سے افغانستان کی صورتحال پر تفصیلی بات چیت کی اور مولانا سے قیام امن کے لئے کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ ان کا مقصد تھا کہ کسی طرح طالبان افغان حکومت کو تسلیم کرلیں اور اس ضمن میں وفد نے افغانستان حکومت بشمول شمالی اتحاد اورحکومت کے تمام اتحادی گروپوں کی طرف سے مولانا سمیع الحق کو ثالث بننے کی پیشکش کی اور ان کے ہر فیصلہ کو تسلیم کرنے کا یقین دلایا اور کہاکہ ہم سب افغان طالبان کی طرح آپ کو اپنا استاد، رہبر اور باپ کی طرح سمجھتے ہیں۔ لیکن مولانا نے ان سے کہاکہ یہ ایک بین الاقوامی گھمبیر مسئلہ ہے، امریکہ سمیت بڑی طاقتیں اسے حل کرنے نہیں دیتیں، میں اپنے کمزور کندھوں پر اتنی بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ڈال سکتا، مگر میری دلی خواہش ہے کہ افغان جہاد اپنے منطقی انجام یعنی ملک کی آزادی اور ا سلام کی حکمرانی تک پہنچ جائے اور یہ باہمی خون خرابہ بند ہوجائے۔انہوں نے مشورہ دیا کہ پہلے مرحلے میں آپ میں سے چند مخلص علماافغان حکمران پاکستان اورامریکہ کی مداخلت سے ہٹ کر خاموشی سے کسی خفیہ مقام پر مل بیٹھیں اور متحارب گروہ ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھ لیں، مولاناسمیع الحق نے کہا تھاکہ میرے نزدیک اس مسئلہ کا واحد حل افغانستان کے حکمرانوں ،پچھلے دور کے مجاہدین تمام عوام او رطالبان کا ایک نکتے پر متفق ہوکر ملک کی آزادی اورامریکی و نیٹو افواج کا انخلا ہونا چاہیے۔ اس طرح قابض استعماری قوتیں نکلنے پر مجبور ہوسکتی ہیں۔ اس کے بعد تمام افغانوں کو مل بیٹھ کر ایک نظام پر اتفاق کرنا چاہیے اور تمام طبقوں کو افغانستان کی آزادی کے لئے دی گئی لاکھوں افراد کی جانی شہادتوں اور لاکھوں مہاجرین کے دربدر ہونے کی قربانیوں کی لاج رکھنی چاہیے۔