نذر الاسلام چودھری
کروڑ پتی چینی بھکارن سے اس کے اہل خانہ تنگ آگئے۔ بیٹوں اور بیٹیوں کے اعتراض کے باوجود ژہانگ مینگ 10 برس سے بھیک مانگ رہی ہے اور اب عمارت، ڈپارٹمنٹل اسٹور، مکان اور باغوں کی مالکن بن چکی ہے۔ چینی حکام کے مطابق گداگر بڑھیا روزانہ تقریباً5,850 پاکستانی روپے بھیک مانگ کر کما لیتی ہے، بلکہ سابق سرکاری ملازم ہونے کے ناطے 20 ہزار پاکستانی روپے کے لگ بھگ پنشن بھی حاصل کرتی ہے۔ ہر ماہ اس کو بھیک دینے والے متمول افراد اس کو کھانے پینے کی اشیا، کمبل اور لباس و جوتے بھی فراہم کردیتے ہیں جس سے یہ لکھ پتی خاتون ژہانگ مینگ اب دس سال میں کروڑ پتی بن چکی ہے اور اس کے اثاثوں میں ایک پانچ منزلہ رہائشی عمارت اور تین ڈپارٹمنٹل اسٹورز کا بھی پتا چلا ہے۔ وہ آبائی گائوں میں کئی مکانات اور دکانوں اور ایک باغ کی بھی مالکن ہے، لیکن اس سبھی جائیدادوں اور لاکھوں روپے کرایہ کی آمدن کے باوجود اس کی پیسہ جمع کرنے کی ہوس میں کمی نہیں ہوئی۔ وہ بیٹے بیٹیوں اور رشتے داروں کی جانب سے منع کرنے کے باوجود بھیک مانگنے اور ہاتھ پھیلانے سے باز نہیں آتی۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے ژہانگ مینگ کے بیٹوں کی جانب سے کی جانے والی شکایات پر سختی کے بجائے نرمی برتنے اور سمجھا بجھا کر اس کو بھی مانگنے سے باز رکھنے کی کوشش کی، لیکن سبھی بے سود رہا۔ بیٹوں نے ریلوے اسٹیشن اور اس سے متصل علاقوں میں درجنوں اہم عوامی مقامات پر اپنی ماں کی تصویریں پوسٹرز کی شکل میں لگوائیں کہ یہ ہماری ماں ہے، ریٹائرڈ سرکاری ملازم اور پنشن یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ متمول بھی ہیں۔ اس لئے ان کو ہرگز بھیک نہ دیں، لیکن پوسٹرز کی حکمت عملی بھی بتدریج ناکام ہوگئی۔ اس لئے اب پولیس ڈپارٹمنٹ نے ریلوے اسٹیشن پر اس خاتون کی نشست کے پاس ایک افسر کو میگافون لے کر کھڑا کردیا ہے، جو آنے جانے والوں کو خبردار کرتا ہے اور اس خاتون کے بارے میں مسلسل اعلانات کرتا ہے کہ اس کو بھیک ہرگز نہ دیں۔ یہ آپ کی بھیک کی مستحق نہیں ہے۔ اس اعلان کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا ہے اور ریلوے اسٹیشن پر مسافروں اور راہ گیروں نے اس اعلان کے بعد بھکارن خاتون کو بھیک دینی کم کردی ہے، لیکن اب بھی یہاں سے معمر بھکارن کے ’’مستقل عطیہ کنندگان‘‘ موجود ہیں اور وہ بوڑھی بھکارن کو لازمی بھیک دیتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ ہم کو اس بڑھیا کا بھیک مانگنے کا اسٹائل اچھا لگتا ہے اور وہ ہمیں دعائوں سے نوازتی ہے۔ اس لئے ہم اس کو بھیک دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ صبح دس بجے ریلوے اسٹیشن پر آجانے والی ژہانگ مینگ رات آٹھ بجے تک نان اسٹاپ مانگتی ہیں اور اس کے بعد بوجھل جیب لئے واپس گھر چلی آتی ہیں۔ ایک پولیس افسر مسٹر ہان کا کہنا ہے کہ ہم نے ایک اسکواڈ کی مدد سے ہٹ دھرم عورت کو ریلوے اسٹیشن میں ایک مناسب مقام پر بٹھا کر سمجھایا کہ ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ تم ایک کروڑ پتی خاتون ہو اور ہر ماہ پنشن، بھیک، کرائے اور منافع کی مد میں لاکھوں روپیہ کما رہی ہو، اس لئے بھیک مانگنا ترک کردو لیکن ژہانگ مینگ نے تمام باتیں سن کر بھی کہا کہ میں بھیک مانگنا ترک نہیں کرسکتی کیونکہ یہ ایک چسکا ہے اور اس کو میں چھوڑ نہیں سکتی اور ویسے بھی جب لوگ مجھے بھیک دینا چاہتے ہیں تو تم لوگ کون ہوتے ہو مجھے بھیک مانگنے سے روکنے والے؟ پولیس کے مطابق ناراض ہوجانے والی معمر چینی خاتون نے اپنا رُخ اچانک بیٹوں کی جانب کرلیا اور چیخ و پکار مچا دی کہ میں یہ سبھی کچھ تمہارے کیلئے کررہی ہوں، مرنے کے بعد سارا مال و متاع تمہارا ہی ہوگا۔ اس ڈانٹ پھٹکار پر بیٹے بھی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور بڑی بی بھیک مانگنے نکل پڑیں۔ اس سلسلے میں چینی نیوز ایجنسی بائو نیوز نے بتایا ہے کہ معمر خاتون کی عمر اسی برس ہے جو 60برس کی عمر تک بھکارن نہیں تھی لیکن ساٹھ سال کی عمر میں وہ سرکاری ادارے سے صفائی کی ملازمہ کی پوسٹ سے ریٹائرڈ ہوئی تو اس کا ارادہ گریجویٹی اور دیگر فنڈز کو بینک میں ڈپازٹ کرانے اور ہر ماہ معقول منافع کمانے کا تھا۔ چینی میڈیا کے مطابق جلد ہی وہ ایک نئے کاروبار سے منسلک ہوگئیں یعنی وہ ریلوے اسٹیشن ’’ہانگ ژو ایسٹ ریلوے اسٹیشن‘‘ پر سیاحوں اور غیر ملکی زائرین کیلئے چین بھر کے نقشوں کی فروخت کا کام کرنے لگیں، لیکن ایک ماہ کے اندر اندر پولیس ڈپارٹمنٹ نے ان کو یہاں ریلوے اسٹیشن پر کام سے روک دیا، جس کے بعد بوڑھی خاتون نے بھیک مانگنا شروع کردی اور عمر رسیدگی کی وجہ سے لوگ ان کو بھیک دینے لگے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post