صوبوں کو شامل کرکے ملک گیر کریک ڈاون کی تیاری – مزید 11 گرفتار
کراچی (اسٹاف رپورٹر) وفاقی حکومت نے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان کی حکومتوں سے آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے کیخلاف احتجاج و دھرنوں میں شریک تحریک لبیک و دیگر جماعتوں کے ارکان کیخلاف کریک ڈاؤن کی تفصیل پیر کی شام 5بجے تک مانگ لی ہے۔ وفاقی حکومت نے ایف آئی اے، چیئرمین نادرا، چیئرمین پی ٹی اے، چیف کمشنر اسلام آباد اور آئی جی نیشنل ہائی وے، موٹر وے پولیس کو احتجاج کیلئے استعمال ہونے والے واٹس ایپ نمبرز کی بھی نشاندہی کا حکم دیا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ نے اس ضمن میں ناصرف ہفتہ 3 نومبر بلکہ 4نومبر کو اتوار کی تعطیل کے باوجود لیٹر جاری کئے۔ چاروں صوبوں،گلگت بلتستان حکومت کے چیف سیکریٹریوں، آئی جی صاحبان، چیف کمشنر اسلام آباد اور آئی جی اسلام آباد سے احتجاج کرنے والوں کی مختلف تفصیلات طلب کی ہیں۔ یہ لیٹر ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، انسپکٹرجنرل نیشنل ہائی ویز و موٹر ویز پولیس، چیئرمین پی ٹی اے اور چیئرمین نادرا کو بھی جاری کیا گیا ہے۔وفاقی حکومت کے جاری مراسلے میں کہاگیا ہے کہ احتجاج کے دوران گاڑیوں سمیت تمام سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے والے افراد اور ان کے خلاف درج کردہ مقدمات کی تفصیلات فراہم کی جائے اور ملوث مزید افراد کی نشاندہی کی جائے۔ اس ضمن میں پی ٹی اے اور نادرا کے ریکارڈ سے تصدیق کرائی جائے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ اس حوالے سے واٹس ایپ کے ریکارڈ کی بھی چھان بین کی جائے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو کہا گیا ہے احتجاج کے حوالے سے ہدایات جاری کرنے، احتجاج اور توڑ پھوڑ کے واقعات کو ہوا دینے والوں کے فون نمبر اور واٹس ایپ نمبرز کی نشاندہی کی جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ جاری کردہ لیٹر کے دوسرے روز ہی یاد دہانی لیٹر جاری کیا جائے۔ 4نومبر کو یاد دہانی لیٹر ملنے پر چیف سیکریٹری سندھ کے احکامات پر محکمہ داخلہ سندھ نے اتوار کو عام تعطیل کے باوجود متعلقہ عملہ طلب کر کے آئی جی سندھ پولیس، ایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس اور کمشنر کراچی کو لیٹر جاری کئے گئے اور انہیں پیر کو ہر صورت میں رپورٹ ارسال کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ پیر کی شام5بجے تک وفاقی وزارت داخلہ کو سندھ میں نقصانات کی تفصیل، ملوث ملزمان کیخلاف مقدمات اور گرفتاریوں کی رپورٹ ارسال کی جاسکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پی ٹی اے اور نادرا کے ریکارڈ سے جن جن افراد کی نشاندہی ہو گی ان کے متعلق رپورٹ ارسال کر دی جائے گی۔اس ضمن میں وفاقی حکومت کے اعلیٰ سطح کے ذرائع کا کہناہے کہ متعلقہ اداروں سے جو رپورٹس موصول ہوچکی ہیں۔ اس کے مطابق زیادہ تر نقصان اور جلاؤ گھیراؤ پنجاب اور خیبر پختون میں ہوا ہے۔کراچی سمیت سندھ بھر میں نقصانات دونوں کی نسبت بہت کم ہوئے ہیں، تاہم احتجاج کے دوران شہر مفلوج بنا رہا۔ ذرائع کا کہناہے کہ اعلیٰ سطح کی مشاورت کے بعد کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔اس حوالے سے وفاقی حکومت کو ویڈیو کلیپس اور ریکارڈ ملنا شروع ہو گیا ہے ۔ دستیاب ریکارڈ متعلقہ اداورں، صوبائی حکومتوں سے بھی شیئر کیا جارہا ہے، تاکہ ملوث تمام افراد کی نشاندہی ہوسکے۔ مذکورہ ذرائع کا کہناہے کہ پیر کو چاروں صوبوں، گلگت بلتستان و اسلام آباد انتظامیہ سے موصولہ رپورٹس کی بنیاد پر مزید اقدامات بھی متوقع ہیں۔
کراچی/ اسلام آباد (اسٹاف رپورٹر/ نمائندہ امت) وفاقی حکومت کی ہدایات پر تحریک لبیک پاکستان کی قیادت سے ہونے والے معاہدے کی سیاہی خشک ہونے سے قبل ہی ہنگامہ آرائی میں ملوث افراد کی گرفتاریوں کیلئے کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے ۔اسلام آباد سے 11 افراد گرفتار کر لئے گئے ہیں۔کراچی کے مختلف تھانوں میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی و سڑکوں کی بندش پر 12 مقدمات درج کئے گئے۔گوجرانوالہ شہر میں مختلف مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت 2500نامعلوم افراد کیخلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔وفاقی حکومت کے نزدیک ملعونہ آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے کیخلاف ملک بھر میں دیئے گئے دھرنوں کے ذریعے بغاوت کی گئی۔ وفاقی حکومت نے املاک کی تباہی اور توڑ پھوڑ میں ملوث عناصر کی شناخت کیلئے وزارت دفاع کی مدد لینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔تحریک لبیک پاکستان نے متنبہ کیا ہے کہ معاہدے کے برعکس اقدامات پر ذمہ دار انتظامیہ ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق چین سے وزیر اعظم کی جانب سے حالیہ احتجاج کے دوران املاک کو نقصان پہنچانے والوں کیخلاف فوری کارروائی کی ہدایات پر دھرنوں کے دوران توڑ پھوڑ میں ملوث افراد اور تحریک لبیک کے رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی ہے ۔کراچی میں ایئر پورٹ، سچل، نیو کراچی، کھارادر، گارڈن اور دیگر تھانوں میں نامعلوم ملزمان کیخلاف12 مقدمات درج کئے گئے ہیں۔جن میں دفعہ 144و سڑکوں کی بندش کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ملزمان کی سی سی ٹی وی اور سوشل میڈیا ویڈیوز کے ذریعے شناخت کی جائے گی۔ اسلام آباد پولیس کے تھانوں کورال اور شہزاد ٹاؤن نے مظاہروں، جلاؤ گھیراؤ کے مقدمات میں مطلوب 11 ملزمان گرفتار کئے ہیں۔ملزمان نے ترامڑی چوک پر حملہ کرکے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو زخمی کیا تھا۔ملزمان پر دہشت گردی، پولیس اہلکاروں کو زخمی کرنے، دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے مقدمات درج ہیں۔مختلف تھانوں میں درج مقدمات میں مذہبی جماعتوں کے 20 کارکنان سمیت 100 سے زائد نامعلوم افراد نامزد ہیں۔اٹک میں احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ پر 4تھانوں سٹی، جنڈ، فتح جنگ و پنڈی گھیب میں مقدمات درج کیے گئے ہیں۔گوجرانوالہ کے تھانہ کوتوالی میں درج مقدمے میں مختلف دینی جماعتوں کے9رہنما و 2500 نامعلوم افراد نامزد کئے گئے۔ ان میں تحریک لبیک کے ڈاکٹر اشرف جلالی، ماربل ایسوسی ایشن کے صدر گلزار احمد، جے یو آئی (ف) کے نائب صدر قاضی کفایت اللہ و رہنما بابر رضوان باجوہ، جماعت اسلامی کے سٹی امیر مظہر اقبال رندھاوا و رہنما فرقان بٹ، جمعیت اہلحدیث کے رہنما مشتاق چیمہ، وفاق المدارس کے جواد قاسمی نامزد ہیں۔ فیروزوالہ کے علاقے فیض پور علاقہ ڈی ایس پی کامران زمان کا بازو توڑنے اور 33 اہلکاروں پر تشدد اور 4سرکاری گاڑیوں کو نذر آتش کرنے پر 16 مذہبی رہنماؤں سمیت 416 نامعلوم افراد کیخلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں ۔اتوار کو کراچی میں ایک سیمینار سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری نے دھرنے کے دوران توڑ پھوڑ کو بغاوت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مذہب و مسلک کا معاملہ نہیں تھا۔ بغاوت کو نظر انداز کرنے والی ریاستوں پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ احتجاج کے دوران آئین، عوام، سیاسی و فوجی قیادت کی توہین کی گئی، جسے ریاست نہیں بھولے گی۔ دھرنا ختم کرانے کیلئے تحریک لبیک سے کئے گئے معاہدے پر حکومتی کمزوری کا تاثر دور کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔دھرنے دینے والوں نے حکومت سے معاہدے میں عوامی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کی معافی کی شرط نہیں رکھی تھی۔احتجاج کے دوران جس طرح کی غلط زبان استعمال کی گئی،حکومت اس پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ ریاست اسے معاف کر دے گی۔ پہلے کراچی بند ہوتا تھا۔ اس بار لاہور بند ہوا ہے اور ان دھرنوں میں جن کی املاک کو نقصان پہنچا اس کا مداوا ہونا چاہیے، احتجاج کرنے والوں کی اخلاقی حالت یہ تھی کہ کیلے والے بچے کی ریڑھی لوٹی گئی ۔لوگوں کے رکشے،غریبوں کی موٹر سائیکلیں جلائی گئیں۔احتجاج کے دوران مظاہرین کے خلاف ریاستی طاقت استعمال کرتے تو جانیں جاسکتی تھیں ۔حکمت عملی کے تحت آگ بجھائی اور شہروں کو بغیر کسی نقصان کے کھولا، لیکن یہ حل نہیں۔ ہر پاکستانی آئین کے تابع ہے اور دستور قرآن و سنت کے تابع ہے۔کیا ریاست بغاوت کو نظرانداز کردے۔جس طرح آئین، عوام، سیاسی، فوجی و عدالتی قیادت کی توہین کی گئی، اس پر کوئی بھی غلط فہمی میں نہ رہے کہ ریاست اس رویے کو معاف کرے گی۔ ادھر وزارت داخلہ میں وزیر مملکت شہریار آفریدی کی زیر صدارت اجلاس میں دھرنوں کے دوران توڑ پھوڑ کرنے والوں کی شناخت کیلئے وزارت دفاع سے بھی مدد لینے اور تیز تر کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں توڑ پھوڑ کے حوالے سے ملک بھر سے تصویری اور ویڈیو شواہد کی روشنی میں کارروائی کی حکمت عملی پر غور کیا گیا ۔ایف آئی اے، نادرا اور پی ٹی اے کے سربراہان سے شرپسندوں کی شناخت سے متعلق رپورٹس پیر کی شام تک طلب کی گئیں۔اس موقع پر اپنے خطاب میں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے والوں سے کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ اجلاس میں وزیر مملکت مراد سعید، وزیر اعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، ڈائریکٹر جنرل جی پی ٹی اے، نیشنل ہائی ویز و موٹرویز پولیس کے سینئر حکام بھی موجود تھے۔ تحریک لبیک کراچی کے امیر علامہ رضی حسینی نے کہا ہے کہ معاہدے کے مطابق حکومت کو تحریک لبیک کے کارکنان پر کیس ختم کرنا ہیں۔انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ معاہدے کے برعکس اقدامات پر ذمہ دار انتظامیہ پر ہوگی۔ نامعلوم افراد کیخلاف چاہے جتنے مرضی مقدمات بنائے جائیں گے۔ ہم نے قانونی اور شرعی حق کے تحت ریلیاں نکالیں، جس سے ہمیں کوئی روک نہیں سکتا۔اگر ہمارے کسی بھی رہنما کیخلاف جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا تو ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے اور اسے معاہدے کی خلاف ورزی سمجھیں گے۔