مرزا عبدالقدوس
جے یو آئی (س) کے سربراہ اور دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق شہید کی تعزیت کرنے والوں کا گزشتہ روز (اتوار کو) بھی جامعہ حقانیہ میں تانتا بندھا رہا اور سیاسی و مذہبی شخصیات سمیت بڑی تعداد فاتحہ خوانی میں شریک ہوئی۔ مولانا فضل الرحمان جو کسی وجہ سے نماز جنازہ میں شریک نہیں ہو سکے تھے، گزشتہ رات وہ بھی جامعہ حقانیہ پہنچے اور مولانا سمیع الحق شہید کے ورثا سے اظہار تعزیت کیا اور فاتحہ خوانی کی۔ مولانا سمیع الحق کی شہادت اور پولیس تفتیش کے حوالے سے ’’امت‘‘ نے جے یو آئی (س) کے نئے قائم مقام امیر اور مولانا شہید کے صاحبزادے مولانا حامد الحق سے بات کرنے کی کوشش کی، تاہم شدید مصروفیات کی وجہ سے ان سے بات نہیں ہو سکی۔ البتہ مولانا سمیع الحق شہید کے دست راست اور قریبی عزیز مولانا یوسف شاہ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا شہید کے قتل کیس میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی راولپنڈی پولیس نے ان سے کوئی رابطہ کیا ہے۔ چونکہ وہ خود بھی تعزیت کے لئے آنے والوں سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں، اس لئے وہ بھی رابطہ نہیں کر سکے ہیں۔ ایک سوال پر مولانا یوسف شاہ نے بتایا کہ ’’مولانا شہید پانچ چھ سال سے اس رہائش گاہ پر قیام کرتے تھے اور کافی لوگوں کو راولپنڈی اسلام آباد میں ان کی اس رہائش گاہ کا علم تھا۔ جو لوگ اس طرح کا کام یعنی کسی کو قتل کرتے ہیں، وہ تو اس سے پہلے کافی معلومات اکٹھی کرتے ہیں اور مکمل ریکی کے بعد یہ کام کرتے ہیں۔ احمد شاہ ساڑھے پانچ بجے گھر سے نکلے۔ وہ گزشتہ بیس اکیس سال سے مولانا کے ساتھ ہیں۔ وہ ان کے خدمت گار یا سیکریٹری اور بااعتماد ساتھی تھے۔ احمد شاہ مولانا شہید ہی کے لئے کوئی چیز لینے گئے تھے۔ پہلے بھی کئی بار وہ اسی طرح باہر سے گیٹ کو کنڈی لگا کر جاتے تھے۔ اس دن بھی اسی طرح گئے۔ چھ بج کر پندرہ منٹ پر واپس آئے تو یہ واقعہ ہو چکا تھا۔ انہوں نے فوراً مولانا حامد الحق کو فون کیا۔ پھر سیکورٹی بلوائی گئی۔ ایمبولینس میں لے جایا گیا۔ لیکن مولانا اسپتال پہنچنے سے پہلے شہید ہو چکے تھے۔ یہ قیاس آرائی ہے کہ احمد شاہ نے کسی کو گھر کی طرف آتے دیکھا یا وہ مہمانوں کے آنے پر بازار سے ان کے لئے کوئی چیز لینے گئے تھے۔ احمد شاہ نے کسی کو آتے جاتے نہیں دیکھا۔ ان کی عدم موجودگی میں یہ قتل ہوا۔ وہ واپس آئے تو مولانا خون میں لت پت پڑے تھے‘‘۔مولانا یوسف شاہ نے ایک اور سوال پر کہا کہ ’’احمد شاہ کو پولیس اپنے پاس تفتیش یا سوالات کے جوابات کے لئے رکھنا چاہتی تھی۔ پولیس نے ان سے گھنٹوں تک مختلف زاویوں سے معلومات بھی لیں اور سوالات بھی کئے۔ لیکن پھر ہم ان کو ساتھ لے آئے۔ اب وہ تعزیت کے لئے یہاں (جامعہ حقانیہ) میں موجود ہیں۔ ہم نے پولیس سے کہا تھا کہ احمد شاہ، مولانا شہید کے قریبی ساتھی ہیں۔ وہ طویل عرصہ ان کے ساتھ رہے ہیں، لہذا ان کا نماز جنازہ میں شریک ہونا ضروری ہے۔ جب آپ کہیں گے، وہ آپ کے پاس آجائیں گے۔ اب آج (پیر) کو ہم پولیس سے رابطہ کریں گے اور کیس میں پیش رفت کے بارے میں معلومات حاصل کریں گے‘‘۔ ایک اور سوال پر مولانا یوسف شاہ نے کہا کہ ’’مولانا سمیع الحق شہید کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ اسلام اور پاکستان کے دشمن ان کے بھی دشمن تھے، کیونکہ وہ اسلام اور پاکستان کے وکیل اور محافظ تھے۔ ان کی سیکورٹی کا احساس بھی تھا، لیکن وہ انتہائی منکسر المزاج شخصیت تھے۔ وہ اپنے ساتھ سیکورٹی یا دوسری گاڑی کو بھی اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ملک بھر میں صورت حال امن و امان کے حوالے سے ابتر تھی، اس وقت بھی انہوں نے سیکورٹی کے ساتھ چلنے سے گریز کیا۔ جب مولانا شہید کی کسی سے دشمنی نہیں تھی تو لا محالہ انہیں ان ہی قوتوں نے شہید کیا، جو پاکستان اور افغانستان میں ان کے امن و امان کے حوالے سے کردار سے خائف تھے۔ اب یہ اداروں اور سیکورٹی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قاتلوں کا کھوج لگائیں۔ ہمارے ذمے جو فرض اور ذمہ داری ہے، ہم وہ ادا کرنے کے لئے اور تعاون کے لئے تیار ہیں‘‘۔
مولانا یوسف شاہ کا مزید کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، جے یو آئی (ف) سمیت تمام بڑی جماعتوں کے قائدین تعزیت کے لئے آئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نماز جنازہ میں شریک نہیں ہو سکے تھے، لیکن اسی رات تعزیت کے لئے آئے۔ اس سے پہلے ان کی جماعت کا وفد اکرم درانی کی قیادت میں فاتحہ خوانی کے لئے آیا تھا۔