امت رپورٹ
پی ٹی آئی حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے مابین ہونے والے پانچ نکاتی معاہدے کو ختم کرانے کے لئے بیرونی دبائو بڑھ گیا ہے، تاکہ آسیہ ملعونہ کی بیرون ملک روانگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ واضح رہے کہ اس معاہدے کے بعد آسیہ مسیح کی فوری طور پر ملک سے روانگی رک گئی ہے، جس کی تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں۔ ذرائع نے بتایا کہ 8 اکتوبر کو جب سپریم کورٹ نے آسیہ ملعونہ کی سزائے موت کے خلاف اپیل کا فیصلہ محفوظ کیا تھا تو اُس وقت آسیہ مسیح کا شوہر عاشق مسیح اپنے پانچ بچوں کے ہمراہ برطانیہ میں تھا۔ تاہم جب اسے پیغام ملا کہ آسیہ مسیح کی رہائی یقینی ہے تو اس نے فوری اپنے بچوں کے ہمراہ پاکستان آنے کے لئے پرواز بھری، تاکہ اپنی بیوی کو ساتھ لے جا سکے۔ اس کے انتظامات وہ برطانیہ میں کر کے آیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ فرانس اور اسپین کی جانب سے عاشق مسیح کی فیملی کو سیاسی پناہ کی پیشکش بہت پہلے ہو چکی تھی، تاہم عاشق مسیح کی خواہش ہے کہ اس کا خاندان برطانیہ میں سکونت اختیار کرے۔ جبکہ قیام کے حوالے سے کینیڈا اور امریکہ اس کی دوسری اور تیسری ترجیحات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے حالیہ ویڈیو یپغام میں ان تینوں ممالک کے سربراہان سے نہ صرف یہ اپیل کی ہے کہ وہ اس کی فیملی کو پاکستان سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں، بلکہ ان ممالک سے سیاسی پناہ کی اپیل بھی کی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے آسیہ ملعونہ کی سزائے موت کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد اس سارے ایشو کو شروع سے کور کرنے والے سی بی این نیوز چینل کے رپورٹر گیری لین سے پروگرام کے میزبان نے جب استفسار کیا کہ انہیں اس عدالتی فیصلے کی توقع تھی، تو گیری لین کا کہنا تھا کہ یقیناً انہیں یہی توقع تھی۔ گیری لین کے بقول فیصلہ اس لئے محفوظ کیا گیا تھا کہ اس دوران آسیہ مسیح کی فیملی کو کسی مغربی ملک میں پناہ کے لئے قانونی کارروائی کا وقت مل جائے۔ اسی امید پر عاشق مسیح بھی فوری طور پر برطانیہ سے پاکستان پہنچا تھا۔ لیکن فیصلے پر ہونے والے ملک گیر احتجاج اور پھر معاہدے کے نتیجے میں آسیہ مسیح کی یقینی روانگی رک گئی۔ عاشق مسیح کے خاندان کو قریب سے جاننے والے شیخوپورہ میں موجود ذرائع نے بتایا کہ آسیہ مسیح کے کیس کو بین الاقوامی توجہ حاصل ہونے کے بعد سے عاشق مسیح اور اس کے بچوں کا مغربی ممالک میں آنا جانا معمول بن گیا۔ اس کیس سے پہلے ان کے خاندان کو دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل تھا۔ تاہم اب ہوائی جہاز کے مہنگے ٹکٹ خریدنا اور یورپی ممالک میں قیام کرنے کے اخراجات برداشت کرنا ان کے لئے معنی نہیں رکھتا۔
ادھر سوشل میڈیا پر یہ افواہیں گرم تھیں کہ آسیہ مسیح کو خاموشی کے ساتھ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی بیرون ملک روانہ کر دیا گیا تھا۔ تاہم پنجاب کے آئی جی جیل خانہ جات شاہد سلیم بیگ نے نصف درجن سے زائد ملکی و غیر ملکی میڈیا نمائندوں کو دو روز قبل باور کرایا کہ آسیہ مسیح اب بھی جیل میں ہے۔ اور یہ کہ جیل حکام تاحال عدالتی حکم نامے کے منتظر ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ملتان کی ایک خواتین جیل میں قید آسیہ مسیح کو جیل کے اندر ہی ایک محفوظ مقام پر رکھا گیا ہے، جہاں کسی کی مداخلت ممکن نہیں۔ کیونکہ خدشہ ہے کہ اسے کوئی بھی قیدی حتیٰ کہ جیل کا کوئی محافظ بھی ہلاک کر سکتا ہے۔ آسیہ میسح کی سیکورٹی میں اضافہ اس کے شوہر عاشق مسیح کے ان خدشات کے بعد کیا گیا ہے کہ جس میں اس کا کہنا تھا کہ آسیہ مسیح پر جیل کے اندر حملہ کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں عاشق مسیح نے ان دو عیسائیوں کا حوالہ دیا، جنہیں عدالت سے بریت کے باوجود جیل میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق یہ پہلی بار نہیں ہے کہ جیل میں آسیہ میسح کی جان کو لاحق خطرات محسوس کرتے ہوئے اس کی سیکورٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ 2015ء میں جب سپریم کورٹ کی جانب سے سلمان تاثیر کے قتل میں ممتاز قادری کو سنائی جانے والی سزائے موت برقرار رکھی گئی تھی تو اس وقت بھی جیل حکام نے آسیہ مسیح کو جیل کے اندر ہی ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا، تاکہ ردعمل میں کہیں آسیہ مسیح کو نشانہ نہ بنا دیا جائے۔
ملک کی موجودہ صورت حال میں آسیہ مسیح اور اس کی فیملی کو ہی سیکورٹی کے مسائل کا سامنا نہیں، بلکہ اس کے وکیل سیف الملوک بھی یہ کہتے ہوئے بیرون ملک روانہ ہو چکے ہیں کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔ ہفتے کے روز بیرون ملک روانہ ہونے سے پہلے ایئرپورٹ پر غیر ملکی خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے سیف الملوک نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس ملک روانہ ہو رہے ہیں۔ تاہم ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جان کے خوف سے پاکستان چھوڑنے کا اعلان کرنے والے سیف الملوک دراصل آسیہ مسیح کو ملک سے نکالنے کی خاطر غیر ملکی حمایت حاصل کرنے کے لئے روانہ ہوئے ہیں۔ اپنی بیرون ملک موجودگی کے دوران وہ مختلف بین الاقوامی فورم پر آسیہ مسیح کے کیس کو زیادہ سے زیادہ ہائی لائٹ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سیف الملوک اٹلی کے شہر روم سے ہوتے ہوئے ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈم پہنچیں گے۔ جہاں وہ ایک کانفرنس سے خطاب کے بعد لندن میں طویل قیام کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ عاشق مسیح کے خاندان کو سپورٹ کرنے والی مغربی طاقتوں کی تاکید ہے کہ وہ دنیا تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے غیر ملکی میڈیا کا سہارا لے اور مقامی میڈیا سے دور رہے۔ لہٰذا اب تک عاشق مسیح نے زیادہ تر انٹرویوز غیر ملکی میڈیا کو ہی دیئے ہیں۔ جس میں جرمن ریڈیو ڈوئچے ویلے کو دیا جانے والا تازہ انٹرویو شامل ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا سے مدد کے لئے ریکارڈ کرائے جانے والے اپنے ویڈیو پیغام کا کلپ بھی اس نے مغربی صحافیوں کو پہنچایا ہے۔ اور ساتھ ہی تاکید کی ہے کہ وہ اس ویڈیو پیغام کے کلپ کو شیئر یعنی عام نہ کریں۔ کیونکہ اس سے پاکستان میں اس کی خفیہ پناہ گاہ کی شناخت ہو سکتی ہے۔
تحریک لبیک کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے کو ختم کرانے کی غرض سے پاکستانی حکومت پر دبائو ڈالنے کے لئے اس وقت تقریباً تمام مغربی میڈیا متحرک ہے۔ تاہم جرمن ریڈیو ڈوئچے ویلے، اے ایف پی، گارجین، بی بی سی، آبزرور، سڈنی مارننگ ہیرالڈ، وائس آف امریکہ، ٹیلی گراف، سی این این، سی بی این اور اطالوی اخبار کوریرے ڈیلا سیرا سرفہرست ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ آسیہ ملعونہ کی بیرون ملک روانگی کے لئے برطانوی حکام اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ پس پردہ خاصی کوششیں کر رہے ہیں۔ ان معاملات سے آگاہ لندن میں موجود ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی چین سے دورے سے واپسی کے بعد برطانوی دفتر خارجہ کی جانب سے باقاعدہ پاکستانی حکام سے رابطے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں امور خارجہ کی سلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین Tom Tugendhat کے بقول انہوں نے اپنے ہوم آفس کو کہا ہے کہ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے آسیہ مسیح کو پاکستان سے نکالنے کے لئے فوری طور پر اپنا کردار ادا کرے۔ جبکہ اپنے ٹوئٹ میں برطانوی رکن پارلیمنٹ ٹام کا کہنا تھا ’’اقلیتوں کے خلاف تشدد قابل قبول نہیں۔ آسیہ سے کیا جانے والا سلوک نہایت حقیر ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ قانون کی حکمرانی کے ساتھ کھڑے ہیں یا پھر ہجوم کی حکمرانی کے ساتھ ہیں۔ عمران خان کے لئے یہ وقت لیڈر شپ دکھانے کا ہے‘‘۔ ذرائع کے مطابق دوسری جانب یورپی یونین کے تین درجن سے زائد ارکان نے بھی اس سلسلے میں پاکستان سے رابطے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں بیشتر ارکان وہی ہیں، جنہوں نے قریباً چار سال پہلے بھی یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ فیدیریکا مورگیرینی کو خط لکھا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ وہ حکومت پاکستان پر آسیہ مسیح کی سزا معاف کرانے کے لئے دبائو ڈالیں۔ اسی طرح کنٹربری کے سابق آرچ بشپ رووان ولیمز نے آسیہ مسیح کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دینے کو المیہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت فیصلہ کرے کہ وہ قانون کی حکمرانی کا احترام کرتی ہے یا نہیں۔
جرمن ریڈیو کے مطابق رواں برس کے پہلے مہینے میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا تھا کہ توہین مذہب کے قوانین کے سبب ہی پاکستان کو ’’مذہبی آزادی کے حوالے سے سنگین خلاف ورزی‘‘ کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف کام کرنے والا بین الاقوامی ادارہ فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس بھی پاکستان کو دھمکی دے چکا ہے کہ اسلام آباد مذہبی انتہا پسندی پر قابو پانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے ورنہ اسے بلیک لسٹ کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اب آسیہ مسیح کے ایشو کو جواز بنا کر امریکہ اور فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے بھی پاکستان پر دبائو بڑھایا جانا خارج از امکان نہیں۔