امت رپورٹ
حکومت آسیہ ملعونہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے سپریم کورٹ کے حکم کی منتظر ہے۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ آسیہ مسیح کو ابھی تک رہا نہیں کیا گیا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان سے طے پانے والے معاہدے کے مطابق ابھی تک سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل کی سماعت کا وقت مقرر نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لہذا سپریم کورٹ کا فیصلہ ابھی تک موثر ہے۔ جبکہ فیصلے کیخلاف نظر ثانی کی اپیل حکومت کی جانب سے نہیں، بلکہ آسیہ مسیح کیخلاف کیس کے مدعی قاری محمد سالم کی جانب سے سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی وساطت سے دائر کی گئی ہے۔ اپیل میں آسیہ مسیح کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی استدعا کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت از خود آسیہ مسیح کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈال سکتی، کیونکہ سپریم کورٹ نے اس کی رہائی کا فیصلہ دے رکھا ہے اور یہ فیصلہ ابھی تک موثر ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آپس میں شدید اختلافات کے باوجود ملعونہ آسیہ کے معاملے میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور نواز لیگ اکٹھی ہوگئی ہیں۔ رواں برس کے آغاز میں جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی تو یورپی یونین نے حکومت کو کہا تھا کہ آسیہ مسیح کے معاملے میں مثبت رویے پر وہ پاکستان کی مالی مدد کریں گے۔ جس پر اس وقت کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے یورپی یونین کو یقین دہانی کرائی تھی اور یورپی یونین کی جانب سے کہا گیا تھا کہ Generalised System of Preferences (GSP) کو پاکستان کیلئے بحال کیا جائے گا۔ اس مقصدکیلئے یورپی یونین کے مذہبی آزادی کے کمیشن کے نمائندے جان فیگل پاکستان آئے تھے اور اس وقت کی حکومت سے یقین دہانیاں حاصل کی تھیں۔ 19 جنوری 2018ء کو انہوں نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی تھی اور آسیہ مسیح کی رہائی کی یقین دہانی حاصل کی تھی۔ ذرائع کے بقول جان فیگل کے دورے کا واحد مقصد آسیہ ملعونہ کو سزائے موت سے بچانا تھا۔ اس کیلئے پاکستان کو یورپی ممالک میں تجارت کی شرح میں اضافے کا لالچ دیا گیا تھا۔ جان فیگل نے اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر سپریم کورٹ پر بھی تنقید کی کہ وہ دانستہ طور پر ملک کے ایک مخصوص طبقے کو خوش کرنے کیلئے اس کیس کے فیصلے میں تاخیر کر رہا ہے۔ لیکن اس وقت کی حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔ ذرائع کے بقول جان فیگل وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے مکمل یقین دہانی حاصل کرکے واپس گئے تھے۔ لیکن جاتے جاتے انہوں نے آسیہ مسیح کی رہائی کو یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدوں کے ساتھ مشروط کر دیا تھا۔ تاہم نواز لیگ کی حکومت کو اس معاہدے پر عملدرآمد کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ آسیہ مسیح کی رہائی کا فیصلہ سامنے آتے ہی پاکستان میں یورپی یونین (ای یو) کے سفیر جین فرینکوئس کوٹین نے بیان دیا کہ یورپی یونین جی ایس پی پلس کی سہولت کے تحت پاکستان کے ساتھ اقتصادی و تجارتی رابطوں کو بڑھانے کی خواہشمند ہے اور جی ایس پی پلس کی سہولت یورپی یونین کے ممالک کو کی جانے والی پاکستانی برآمدات کے اضافہ میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا تھا کہ جی ایس پی پلس کی سہولت کے آغاز کے موقع پر انسانی حقوق اور آسیہ مسیح کی رہائی کی شرط رکھی گئی تھی۔ اس کے علاوہ انسانی وسائل اور افرادی قوت کے حقوق، گڈ گورننس اور ماحولیاتی معاہدوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی، ہالینڈ، اسپین اور اسکینڈے نیویا کے ممالک پاکستان کے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں، جن کو برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور یورپی یونین، اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں میں عالمی تعاون کے فروغ کیلئے اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور حالیہ برسوں کے دوران پاکستان میں خواتین اور بچوں کے حقوق کے معاملات میں کافی بہتری آئی ہے۔ ذرائع کے بقول یورپی یونین کی مذہبی انتہا پسندی اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ 2017ء میں یورپی پارلیمنٹ کے قانون سازوں نے ’’سخاروف ایوارڈ برائے آزادی اظہار رائے‘‘ کیلئے توہینِ مذہب کے جرم پر پاکستان میں سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو بھی نامزد کیا تھا۔ واضح رہے کہ سخاروف ایوارڈ کا سلسلہ یورپی پارلیمان نے شروع کیا تھا اور اس انعام کا نام روسی سائنسدان آندرے سخاروف کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یورپی پارلیمان اور اس کے ممبران کئی برس سے آسیہ مسیح کے کیس پر سخت تحفظات کا اظہارکر رہے ہیں اور پاکستان سے مسلسل آسیہ مسیح کی سزائے موت ختم کرانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
Prev Post