نمائندہ امت
مولانا سمیع الحق شہید کی کردار کشی کی مذموم مہم واشنگٹن میں موجود افغان سفارت خانے سے چلائی گئی ہے۔ مہم میں پاکستان کے بعض لادین عناصر بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت شامل ہوئے۔ ’’موچی‘‘ جیسے بدنام زمانہ اور غلیظ فیس بک پیچ نے بھی بیرون ملک سے مذکورہ مہم میں حصہ لیا، جس کا مقصد مولانا سمیع الحق شہید کے قتل کے اصل محرکات پر سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق جے یو آئی (س) کے سربراہ اور دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق کی شہادت کے فوراً بعد ہی ایک انتہائی منظم منصوبہ بندی کے تحت سوشل میڈیا پر شہید کی کردار کشی کی مہم شروع کر دی گئی تھی۔ اس مذموم مہم کا آغاز سب سے پہلے امریکہ میں موجود افغان اتاشی نے کیا تھا۔ افغان اتاشی نے مولانا سمیع الحق کی جائے شہادت کی تصاویر کے ساتھ جعل سازی کی۔ یعنی فوٹو شاپ سے ایڈٹ کر کے سوشل میڈیا پر پھیلا دیا۔ افغان اتاشی کی جانب سے سوشل میڈیا پر جعلی تصویر شیئر کرنے کے بعد دیگر سیکولر اور اسلام دشمن عناصر نے یہ جعلی تصاویر بڑے پیمانے پر پھیلانا شروع کر دی تھیں۔ اس مذموم مہم میں جہاں امریکہ میں موجود افغان سفارت خانے نے حصہ لیا، وہیں پاکستان کے لا دین عناصر بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ یہ عناصر نہ صرف ان جعلی تصاویر کو پھیلاتے رہے، بلکہ اپنے خفیہ فیس بک گروپس میں ایک دوسرے کو ہدایات بھی دیتے رہے کہ یہ بڑا خاص موقع ہے، جتنا ممکن ہو سکے شہید عالم دین کی کردارکشی کی جائے اور سوشل میڈیا پر جعلی تصاویر کو خوب پھیلایا جائے، تاکہ اس کے بھرپور اثرات مل سکیں۔ اس مہم میں سب سے بڑھ چڑھ کر حصہ سوشل میڈیا پر ’’موچی‘‘ نامی بدنام زمانہ اکائونٹ نے لیا تھا، جو مولانا سمیع الحق شہید کی کردارکشی میں مسلسل مصروف عمل رہا۔ اس نے نہ صرف یہ کہ جعلی تصاویر پھیلائیں، بلکہ اپنے ہم خیال لوگوں کو بھی اکساتا رہا کہ مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے۔
ذرائع کے مطابق یہ مذموم مہم ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت شروع کی گئی۔ بنیادی طور پر تو اس کا آغاز امریکہ میں موجود افغان سفارت کار نے کیا تھا، مگر اس مہم میں اس نے پاکستان کے لا دین عناصر اور ’’موچی‘‘ کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا۔ سوشل میڈیا پر نظر رکھنے والے ذرائع کے مطابق جس طرح مہم شروع کی گئی، اس سے واضح طور پر پتا چل رہا ہے کہ سب کچھ پہلے سے طے تھا اور اس کی جزئیات تک بھی طے کرلی گئی تھیں۔ ذرائع کے بقول کیونکہ امریکی کٹھ پتلی افغان حکومت یہ سمجھتی تھی کہ اس کے زیادہ تر مسائل اور افغانستان میں طالبان کی جانب سے جاری مزاحمت کی تحریک کے ذمہ دار مولانا سمیع الحق ہیں، لہٰذا افغان سفارتی حکام نے مولانا سمیع الحق کی شہادت کے موقع پر اپنا بغض نکالا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں موجود کئی ذرائع اور مولانا سمیع الحق شہید کی پارٹی اور ان کے اہل خانہ پہلے ہی افغان حکومت کو واقعے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔
اس حوالے سے ممتاز افغان صحافی جو کئی بین الاقوامی اداروں کیلئے بھی کام کرتے ہیں، نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ… ’’واشنگٹن میں موجود افغان اتاشی، مولانا سمیع الحق کے بیڈ روم کی جعلی تصاویر شیئر کر رہا ہے، جو بہت بڑی بدنصیبی ہے اور اس کو روکنا چاہیے‘‘۔ انہوں نے مولانا کے خون آلود بیڈ کی اصل تصویر بھی شیئر کی ہے۔ افغان صحافی سمیع اللہ یوسفزئی کا ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کا مولانا سمیع الحق کے ساتھ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے دوران بہت تعلق رہا ہے۔ انہوں نے جو ٹویٹ کیا وہ درحقیقت سوشل میڈیا ہی سے حاصل اطلاعات کی بنا پر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا سمیع الحق شہید کے خلاف مہم بہت افسوسناک ہے اور اس کو بند ہونا چاہیے۔
٭٭٭٭٭