امت رپورٹ
تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے دوبارہ دھرنے کی دھمکی پر حکومت میں کھلبلی مچ گئی ہے اور ممکنہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے سر جوڑ لئے گئے ہیں۔ یہ دھمکی تحریک لبیک پاکستان کے خلاف ملک بھر میں جاری کریک ڈائون کے تناظر میں دی گئی۔
تحریک لبیک پاکستان کے نہایت ذمہ دار ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ملک کے مختلف شہروں بالخصوص پنجاب اور اسلام آباد میں پارٹی ورکرز کی بڑی پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں نے مرکزی قیادت کو برہم کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس کریک ڈائون پر بالخصوص علامہ خادم حسین رضوی اتنے سخت غم و غصہ میں ہیں کہ انہوں نے پیر کو عشا کی نماز سے پہلے دوبارہ دھرنے کا حکم دیتے ہوئے کارکنوں کو باہر نکلنے کی ہدایت دینے کا بھی کہہ دیا تھا۔ اس وقت خادم حسین رضوی کے پاس چند پارٹی رہنما موجود تھے۔ بعد ازاں فوری طور پر پیر افضل قادری اور بعض دیگر مرکزی قائدین کو بھی اس سے آگاہ کر دیا گیا۔ اس موقع پر موجود ایک اہم رہنما نے بتایا کہ علامہ خادم حسین رضوی کا کہنا تھا ’’میں دوبارہ دھرنے کا اعلان کرنے جا رہا ہوں۔ اس بار کا دھرنا فیصلہ کن ہو گا۔ جو ہو گا، دیکھا جائے گا۔ ملک بھر میں موجود تمام ورکرز کو اطلاع کر دی جائے کہ عشا کے بعد وہ گھروں سے باہر نکل آئیں‘‘۔ ذرائع کے مطابق علامہ خادم حسین رضوی کے اس فیصلے سے پیر افضل قادری نے بھی اتفاق کیا اور اس کے بعد ہی انہوں نے سوشل میڈیا پر ویڈیو پیغام اپ لوڈ کیا۔ اس ویڈیو پیغام میں حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے تحریک لبیک پاکستان کے بانی و سرپرست اعلیٰ افضل قادری کا کہنا تھا ’’ہم ڈرنے والے نہیں اور شہادت کے جذبے سے سرشار ہو کر میدان میں ہیں۔ اگر آپ نے بدعہدی کی تو یاد رکھنا کہ پورا ملک، آپ کے خلاف کھڑا ہو جائے گا۔ معاہدے میں جتنے لوگ بھی شامل تھے، وہ سب اس بات کو جان لیں۔ میں اپنی جماعت سے کہتا ہوں کہ وہ مشاورت کا عمل تیز کر دے۔ اجلاس کرے۔ تمام کارکنوں سے ملاقاتیں کرے۔ اور کارکنوں کو تیار کرے کہ کسی وقت بھی دوبارہ دھرنے کی کال آ سکتی ہے‘‘۔
ذرائع نے بتایا کہ دوبارہ دھرنے سے متعلق اطلاعات جب پنجاب حکومت تک پہنچیں تو کھلبلی مچ گئی۔ فوری طور پر لبیک تحریک کے قائدین سے فون پر رابطے کئے گئے۔ مقصد یہ تھا کہ ٹی ایل پی کو دوبارہ دھرنے کے اعلان سے روکنے کے لئے فوری طور پر انگیج کیا جائے۔ اور اس میں حکومت کو وقتی طور پر کامیابی بھی مل گئی۔ ٹی ایل پی کے ایک رہنما کے مطابق مرکزی قیادت سے ٹیلی فون پر پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت اور وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے رابطہ کیا، جو پانچ نکاتی معاہدے کے ضامن بھی ہیں۔ رہنما نے بتایا کہ دونوں حکومتی نمائندوں کا مرکزی قیادت سے کہنا تھا کہ وہ دوبارہ دھرنے کا انتہائی قدم اٹھانے سے گریز کریں۔ اور انہیں وقت دیا جائے کہ وہ جاری کریک ڈائون کے حوالے سے اعلیٰ حکومتی سطح پر بات کر لیں۔ رہنما کے بقول اس حکومتی درخواست پر علامہ خادم حسین رضوی اور دیگر قائدین نے دوبارہ دھرنے کے اعلان سے قبل شوریٰ کا اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاکہ حکومتی جواب آنے تک کسی حتمی فیصلے پر پہنچنے کے لئے مشاورتی عمل مکمل کر لیا جائے۔ پیر کی رات ان سطور کے لکھے جانے تک تحریک لبیک پاکستان کی مجلس شوریٰ کا اجلاس جاری تھا۔ پارٹی رہنما نے بتایا کہ رات گئے تک اجلاس جاری رہنے کی توقع ہے، جس کے اختتام پر کئی اہم فیصلے کر لئے جائیں گے۔
تحریک لبیک پاکستان کے ذرائع نے بتایا کہ اتوار کو سارا دن پارٹی ورکرز کے خلاف کریک ڈائون کی خبریں تو میڈیا پر چل رہی تھیں، لیکن ان کے پارٹی کے ذمہ داران کی طرف سے ایسی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ یہی سبب ہے کہ پارٹی قیادت نے خیال کیا کہ شاید حکومت اپنی سبکی سے بچنے اور عوام میں ساکھ بہتر بنانے کے لئے اس طرح کی خبریں چلوا رہی ہے۔ تاہم پیر کے روز اچانک عملی طور پر ٹی ایل پی کے خلاف بڑا کریک ڈائون شروع کر دیا گیا۔ اور ملک کے مختلف حصوں سے ورکرز کی گرفتاری کی خبریں پارٹی سیکریٹریٹ کو موصول ہونی شروع ہو گئیں۔ حتیٰ کہ پارٹی کے ضلعی عہدیداران نے یہاں تک بتایا کہ جو ورکرز گھر پر موجود نہیں تھے، پولیس ان کی فیملی کے ارکان کو پکڑ کر لے گئی۔ جس پر بڑی تعداد میں مطلوبہ کارکنوں نے خود اپنی گرفتاریاں پیش کر دیں۔ سب سے زیادہ گرفتاریاں لاہور اور اس کے بعد بالترتیب فیصل آباد، گوجرانوالہ، ملتان، ساہیوال، شیخو پورہ، گجرات اور منڈی بہائوالدین میں کی گئیں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق جی ٹی روڈ اور لاہور سے اسلام آباد تک موٹر وے انٹرچینج کے اردگرد کی آبادیوں میں بھی بھرپور کریک ڈائون کیا گیا ہے۔ دوسری جانب معاہدے کے بعد حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کے جن چند لوگوں کو رہا کیا تھا، چند گھنٹے بعد ان کو دوبارہ پکڑنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ بی بی سی نے ان گرفتاریوں کی تعداد 1800 بتائی ہے۔ تاہم ٹی ایل پی ذرائع کا کہنا تھا کہ انہیں یہ تو علم ہے کہ بڑے پیمانے پر کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے، لیکن فوری طور پر درست اعداد و شمار پارٹی کے پاس موجود نہیں۔ گرفتاریوں کے اعداد و شمار جمع کرنے کا کام جاری ہے۔
حکومت کی جانب سے جاری کریک ڈائون کے دوران اگرچہ تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں کو تو بڑی تعداد میں گرفتار کیا گیا ہے، تاہم مرکزی قیادت سمیت ضلعی سطح کے عہدیداران کی گرفتاریاں ابھی شروع نہیں ہوئی ہیں۔ دوسری جانب سندھ بالخصوص کراچی اور خیبرپختون میں اس نوعیت کا کریک ڈائون تاحال شروع نہیں ہوا ہے۔ اسلام آباد میں موجود ذرائع نے بتایا کہ ٹی ایل پی کے خلاف حالیہ کریک ڈائون کا سلسلہ حکومتی کمزوری کے تاثر کو ختم کرنے کے لئے شروع کیا گیا ہے۔ ٹی ایل پی سے معاہدے پر جہاں ایک طرف اپوزیشن اور خود کو سیکولر کہلوانے والے طبقے کی جانب سے کڑی تنقید کی جا رہی ہے، وہیں بین الاقوامی سطح پر بھی حکومت کی رٹ نہ ہونے کا تاثر گہرا ہوا ہے۔ ہیومن رائٹس انٹرنیشنل نے بھی معاہدہ کرنے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ ذرائع کے بقول یہ ایشو حکومتی وزرا اور عہدیداران میں بھی ڈسکس ہوا۔ جس کے بعد ٹی ایل پی کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے لئے حکمت عملی یہ رکھی گئی ہے کہ فی الحال مرکزی قیادت کو نہ چھیڑا جائے۔ بلکہ کارکنوں کی بڑی تعداد کو پکڑ کر ٹی ایل پی کی اسٹریٹ پاور ختم کر دی جائے۔ تاکہ اگر تحریک لبیک دوبارہ احتجاج کا فیصلہ کرتی ہے تو اسے افرادی قوت میسر نہ ہو۔ تاہم ذرائع کے مطابق اہم نقطہ یہ ہے کہ فی الحال پنجاب میں گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔ جبکہ کراچی سمیت سندھ اور صوبہ خیبر پختون میں بھی تحریک لبیک پاکستان کی جڑیں کافی مضبوط ہیں۔ اگر دوبارہ احتجاج کی کال دے دی جاتی ہے تو فوری طور پر اس کا اثر کراچی اور خیبر پختون میں دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭