سرفروش

0

عباس ثاقب
میں تیزی سے دروازے کے سامنے سے ہٹ گیا۔ دروازے کے سامنے کمبل میں لپٹا محو خواب شخص پہلی نظر میں مجھے پینتیس سال کے لگ بھگ عمر کا لگا۔ معمولی شکل، سانولی رنگت، چہرے پر بے ترتیب داڑھی، سر پر معمولی کپڑے کی سکھوں والی پگڑی، قدکاٹھ بھی معمولی۔ مختصر یہ کہ صرف بندوق کے بل پر بدمعاشی جھاڑنے والوں میں سے ایک۔
میں پہلے ہی ریوالور کا گھوڑا پیچھے کر کے گولی چلانے کے تیار تھا۔ بے آواز قدموں سے آگے بڑھتے ہوئے بالآخر میں دروازے کے پاس پہنچ گیا اور بہت احتیاط سے، دھیرے دھیرے گردن بڑھاکر اندر جھانکا۔ مجھے خستہ حال چھت اور ناہموار فرش والے کمرے کا جتنا حصہ دکھائی دیا، وہاں اس بدمعاش کے علاوہ کوئی دکھائی نہیں دیا۔ البتہ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ پہرا دینے پر مامور رہا ہوگا، لیکن نیند کے ہاتھوں مجبور ہوگیا۔
میں قیاس ہی لگا سکتا تھا کہ وہ کس کی پہرے داری کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں خطرہ مول لے کر کمرے میں جھانکوں۔ میں نے گردن آگے بڑھاکر پہلے بائیں طرف کا جائزہ لیا۔ مجھے وہاں دیوار کے ساتھ ساتھ ایک کونے سے دوسرے کونے تک کاٹھ کباڑ، ٹوٹے پھوٹے فرنیچر اور بے ترتیبی سے پڑی چند بوریوں کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیا۔ اس طرف سے مطمئن ہوکر دروازے کے بائیں طرف دیکھا۔ مجھے فوراً ہی گردن پیچھے ہٹانی پڑی۔ وہاں دیوار کے ساتھ ساتھ دو چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک پر کوئی شخص رضائی میں لپٹا بظاہر سویا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ جبکہ دوسری چارپائی خالی تھی۔
بظاہر کوئی فوری خطرہ نہ دیکھ کر میں ریوالورسنبھالے دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوا۔ چارپائی پر دراز شخص کی طرف سے مطمئن ہوکر میں دیوار سے ٹیک لگاکر سوئے بدمعاش کی طرف بڑھا اور اس کی دو نالی بندوق قبضے میں کرلی۔ اس کے بعد میں اسے اس کے حال پر چھوڑ کر چارپائیوں کی طرف واپس آیا اور اپنے دائیں ہاتھ میں موجود ریوالور کا رخ چارپائی پر محو خواب شخص کی طرف رکھتے ہوئے ہاتھ سے دھیرے دھیرے رضائی اس کے چہرے سے ہٹائی۔
مجھے اس کی شکل و صورت بھی پہلے والے شخص سے ملتی جلتی دکھائی دی۔ بس وہ نسبتاً کم عمر اور چھریرے بدن کا تھا اور رنگ بھی قدرے صاف تھا۔ وہ بہت گہری نیند میں دکھائی دے رہا تھا۔ کیونکہ رضائی منہ سے ہٹنے پر بھی اس نے کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا تھا۔ اگر میرے اٹکل پچو انداز ے کے مطابق، جو اب تک درست ثابت ہو رہا تھا، امر دیپ اور مانو کو ان دونوں نے ہی اغوا کیا تھا تو پہلے والے بدمعاش کے پاس سے دو نالی شاٹ گن ہاتھ لگنے کے بعد اس بدمعاش کے پاس سے جرمن ساخت کا پستول برآمد ہونا چاہیے تھا۔ اور سوتے وقت ایسا کوئی ہتھیار تکیے کے نیچے رکھنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
میں نے ایک نظر دوسرے بدمعاش پر ڈال کر اس کے بھی گہری نیند میں ہونے کا اطمینان کیا اور پھر دھیرے سے تکیے کے نیچے بایاں ہاتھ ڈالا۔ میرا دل ایک دم تیزی سے دھڑکا۔ میری انگلیوں نے کسی ٹھوس، سرد شے کو چھوا تھا۔ ٹٹولنے سے فوراً ہی تصدیق ہوگئی کہ وہ پستول ہی تھا۔ میں نے دستہ گرفت میں لیا اور ہتھیار تکیے کے نیچے سے باہر نکال لیا۔ شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ یہ وہی جرمن پستول تھا۔ اس کا وزن میرے اندازے کے مطابق ایک سیر کے لگ بھگ رہا ہوگا۔ البتہ اس کی ساخت کافی نفیس تھی۔
میں نے اس کا تفصیلی معائنہ بعد کے لیے چھوڑ کر پستول واسکٹ کی جیب میں ڈالا اور ان دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر مٹی کے تیل کا لیمپ اٹھائے کمرے سے باہر نکل آیا۔ مجھے اب پختہ یقین ہو چلا تھا کہ امر دیپ اور مانو بھی آس پاس کے کسی کمرے میں بند ہوں گے اور میں فکرمند تھا کہ وہ دونوں جانے کس حال میں ہوں گے۔ میں پہلے ان کا پتا لگا کر ان دونوں بدمعاشوں سے نمٹنا چاہتا تھا۔ البتہ میں نے ان دونوں کی طرف سے بے فکر ہونے کے لیے اس کمرے کے دروازے کو باہر سے کنڈی لگا دی تھی۔
مجھے زیادہ بھٹکنا نہیں پڑا۔ برآمدے میں بالکل ساتھ والے کمرے کے دروازے پر لگے موٹے سے تالے نے فوراً مجھے متوجہ کرلیا۔ اس برآمدے میں دو کمرے اور بھی تھے، لیکن ان کے دروازے مجھے اکھڑے اور ٹوٹے پھوٹے دکھائی دیئے۔ میں نے تالے کا بغور جائزہ لیا۔ وہ چوڑی دار چابی والا فولادی تالا آسانی سے ٹوٹنے والا نہیں تھا۔ لیکن اس تالے سے زور آزمائی کرنے سے پہلے میں تصدیق کرلینا چاہتا تھا کہ امر دیپ اور مانو واقعی اسی کمرے میں قید ہیں۔ اور اس تصدیق کا ایک ہی طریقہ تھا۔
میں نے ریوالور کے دستے سے دھیرے سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ پہلی کوشش پر کوئی ردعمل سامنے نہ آنے پر میں نے قدرے زور سے دستک دی۔ مجھے لگاکہ اندر کچھ کھٹ پٹ ہوئی ہے۔ میں تیسری بار دروزے پر ضربیں لگانے والا تھا کہ کسی نے پنجابی زبان اور ناراض لہجے میں پوچھا۔ ’’دماغ خراب ہوگیا ہے تم لٹیروں کا؟ چین سے سونے بھی نہیں دیتے۔ کیا مصیبت آگئی ہے؟‘‘۔ امر دیپ کی آواز پہچان کر میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ میں نے دروازے سے منہ لگاکر دھیمی آواز میں کہا۔ ’’امر دیپ بھائیا، زور سے نہ بولو۔ یہ میں ہوں… تیغ بہادر!‘‘۔
اندر چند لمحوں کے لیے مکمل خاموشی چھاگئی۔ پھر امر دیپ نے دھیمے ، لیکن ہیجانی لہجے میں پوچھا۔ ’’بہادر سنگھ !… تم کیسے پہنچ گئے ان ڈاکوؤں کے ڈیرے پر؟ بھاگ جاؤ یار… یہ تمہیں بھی قید کرلیں گے‘‘۔
میں نے اسی دبی دبی آواز میں اسے اطمینان دلایا۔ ’’فکر نہ کرو امر دیپ بھائی، سب قابو میں ہے… تھوڑا انتظار کرو، میں ابھی تم دونوں کو آزاد کراتا ہوں‘‘۔
اسے غالباً میری بات کا یقین نہیں آیا۔ ’’یار تم سچ کہہ رہے ہو؟… یہ تم نے کیسے کرلیا؟ وہ تو بڑے خطرناک بدمعاش ہیں!‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’درندہ کتنا بھی خطرناک ہو، آخر اپنے انجام تک پہنچ ہی جاتا ہے، مجھے بس چند منٹ دے دو‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More