نواب مرزا خان کو معلوم ہوا کہ شہسواری میں بادشاہ سلامت کے کمال کا یہ عالم تھا کہ یہ بات مشہور روزگار تھی کہ ہندوستان میں محض ڈھائی سوار ہیں۔ ایک مرزا ابو ظفر بہادر، ایک آپ کے برادر والا قدر مرزا جہانگیر بخت جنہوں نے انگریزوں سے شرط بد کر الٰہ آباد کے قلعے کی خندق کو فرایا تھا۔ تیسرے شہسوار کے بارے میں کہتے تھے کہ کوئی مراٹھا ہے۔ اس بات کی تصدیق فینی پارکس (Fanny Parkes) کے روزنا مچے سے ہوتی ہے، جہاں اس نے الٰہ آباد میں مقیم گوالیار کی رانی صاحب کا ذکر کیا ہے کہ ان کے متوسلین میں ایک مراٹھن شہسوار تھی، جو محض مہارت شہسواری کے زور پر ایک ہزار سواروں کے بیچ سے بے گزند نکل جاتی تھی۔
ایک معمولی اندازے کے مطابق بادشاہ کی آمدنی اور خرچ میں کم سے کم دوگنے کا فصل رہا ہوگا۔ تو پھر دربار گوہر بار کے اخراجات پورے کس طرح ہوتے تھے؟ نواب مرزا خان نے اس کی تحقیق کرنی چاہی، لیکن کوئی جواب شافی نہ ملا۔ اعلیٰ حضرت قرض لیتے تھے، یہ بات تو سب پر عیاں تھی۔ ایام گزشتہ میں ایک آدھ بار کمپنی بہادر کو بھی کہا گیا کہ ادائے قرضہ ہا میں بادشاہ کی امداد کرے، لیکن کچھ خاص کامیابی نہ ہوئی۔ یہ بھی مرزا داغ کے سننے میں آیا کہ معززین دربار میں اکثر ایسے تھے جو اپنی دولت بادشاہ پر ظاہر نہ کرتے تھے۔ کچھ تو اس خیال سے کہ مواخذہ نہ ہو کہ اتنا مال آیا کہاں سے، اور کچھ اس خیال سے کہ بادشاہ کہیں قرض نہ طلب کرلیں۔ اگر یہ بات ٹھیک تھی، نواب مرزا کان نے اپنے دل میں کہا، تو پھر اعلیٰ حضرت کو قرض بھی کتنا مل جاتا ہوگا؟ ظاہر ہے کہ کچھ اور ذریعہ بھی ہوگا۔
ایک دو بار عہدہ داران کے عزل و نصب کے مواقع آئے تو نواب مرزا خان کو معلوم ہوا کہ نئے تقرر کے لئے امیدوار صاحبان نذرانہ دیتے تھے اور بعض اوقات تقرر کے لئے کچھ نیلام کی صورت پیدا ہو جاتی کہ جو سب سے زیادہ نذرانہ حاضر کرے، اسے عہدہ ملے۔ تو آمدنی کی ایک صورت یہ بھی ہے، نواب مرزا نے اپنے دل میں کہا۔ لیکن پھر بھی ان ذرائع سے بھلا کتنی یافت ہوتی ہوگی؟ یہی دس ہزار بیس ہزار، پر یہاں تو روپیہ ٹھیکروں کی طرح اٹھتا تھا۔
بعض لوگوں کو یقین تھا کہ بادشاہ کے قبضے میں پارس پتھر ہے اور وہ جب اور جتنا چاہتے ہیں سونا بنا لیتے ہیں۔ لیکن داغ کا خیال تھا کہ پارس پتھر ہوتا تو پھر اور بھی اجلے خرچ ہوتے، ہر چیز میں اور بھی بڑھ چڑھ کر اصراف کیوں نہ ہوتا؟ ایک خیال یہ تھا کہ حضور کے پاس دست غیب ہے، جب چاہتے ہیں، جتنا چاہتے ہیں انہیں مل جاتا ہے۔ ایک اور رائے یہ تھی کہ بادشاہ کے قبضے میں کئی زبردست موکل ہیں، وہ ہر مطلوبہ شے دم زدن میں حاضر کردیتے ہیں۔ ان تقریروں پر بھی وہی اعتراض تھا کہ اگر ایسا ہے تو اور بھی زیادہ شان و حشمت ہونی چاہئے تھی۔ کچھ نہیں تو قلعے کے لوٹے ہوئے قیمتی پتھر، سونا چاندی کے پتر، تو دوبارہ لگوا لئے گئے ہوتے۔ یہاں تو برعکس تھا کہ برج قلعہ کا کلس مسی جس پر طلائی ملمع تھا، وہ غائب ہوگیا اور اس کی جگہ نیا لگوانے کی طاقت اعلیٰ حضرت میں نہ پائی گئی۔ بات گھوم پھر کر اسی پرانی افواہ پر آجاتی کہ حضرت علیین مکان صاحب قران ثانی کے زمانے کا خزانہ قلعے کی کسی خفیہ جگہ میں مدفون ہے، وہی اب کام آرہا ہے۔ کچھ یہ بھی کہتے تھے کہ حویلی شاہجہاں آباد سے اکبر آباد کے لال قلعے تک سرنگ ہے، جس کا دہانہ دونوں طرف مسدود کردیا گیا ہے، صرف بادشاہ وقت کو اس کا راز معلوم ہے۔ قلعۂ اکبر آباد میں بھی ایک خفیہ خزانہ ہے۔ مہابلی وہاں سے بھی بقدر ضرورت منگوالیا کرتے ہیں۔
’’اماں میاں صاحب یہ تو دلی ہے‘‘۔ ظہیر دہلوی نے ایک بار نواب مرزا خان سے کہا، جب وہ خفیہ سرنگ اور خزانے کی بات بہت کرید کر پوچھ رہا تھا۔ ’’ہم لوگ افواہیں گھڑنے، خبریں سننے سنانے اور کھیل تماشوں میں بے پر کی اڑانے میں مہارت قدیمی رکھتے ہیں۔ اور ہم لوگ جو بات کہتے ہیں، وہ ایک گھڑی دو گھڑی میں نہیں، بس اسی وقت ندائے غیبی کی طرح چہوں دیس پھیل جاتی ہے‘‘۔
’’مگر کچھ تو اصلیت ہوگی؟‘‘۔ داغ نے زور دے کر کہا۔ ’’آخر اتنا بڑا کارخانہ حضور عالی کا کس کے بل پر چلتا ہے؟‘‘۔
’’صاحب زادے، الٰہی کارخانے کا سراغ کوئی جان سکا ہے؟ نہ کمیدان نہ ناظر نہ میر بخشی نہ صوبیدار، لیکن سب چیز وقت سے ہوتی ہے۔ سورج نکلے ہے، غروب ہووے ہے، گرمیوں کے بعد برساتیں آتی ہیں… تو میاں وسی پر قیاس کرلو۔ اللہ بڑا بادشاہ ہے‘‘۔ ظہیر الدین حسین نے کچھ کچھ کرخنداری لہجے میں کہا۔
مرزا داغ کا اطمینان ان باتوں سے نہ ہوا، لیکن نسق و نظم شاہی کے بایں حسن و خوبی رواں رہنے کا راز بھی وہ کبھی حل نہ کر سکا۔ خیر، اس سے کیا فرق پڑتا ہے، اس نے اپنے دل میں کہا۔ ظل سبحانی مجھ پر مہربان ہیں، مرزا فخرو صاحب بہادر کی شفقتیں مجھ پر اتنی ہیں کہ اب پہلی بار میں نے سمجھا ہے کہ باپ کتنی بڑی نعمت اور کتنی بڑی قوت ہوتا ہے۔ اور میاں نواب مرزا خان، اس نے دل ہی دل میں کچھ اکڑ کر اور کچھ خود پر طنز ملیح کرتے ہوئے کہا، کل کس نے دیکھا ہے۔ آج کے لئے اللہ کا شکر ادا کرو اور بقیہ کے لئے سید خواجہ میر صاحب کی زبان سے کہہ لو
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
خدایا تو اماں جان کو، فاطمہ کو، مرزا بہادر کو ، بڑی خالہ اور منجھلی خالہ کو سلامت رکھیو کہ میری دنیا انہیں کے انفاس سے روشن اور آباد ہے۔ رہا قلعہ کا بقیہ بازار زیست اور کارخانۂ حیات، تو حضرت ظل سبحانی کئی بار میری سماعت میں ارشاد فرما چکے ہیں کہ میرے بعد یہ قلعہ اور یہ بادشاہت نہیں۔ پر یہ بھی خوب ہے کہ حویلی کے مکینوں میں ظاہری ایکا ہے، لیکن اندر اندر افتراق ہے۔ ہر کسی کو بادشاہ بننے کے ارمان ہیں۔ بادشاہت کی، راج پاٹ کی ترقی کی، کسی کو فکر نہیں ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post