طالبان کا شمالی افغانستان میں فوجی اڈے پر قبضہ

0

محمد قاسم
افغان طالبان نے شمالی افغانستان میں فوجی اڈے پر حملہ کرکے 30 سے زائد سیکورٹی اہلکاروں کو ہلاک اور 29 کو اغوا کرلیا۔ جبکہ کابل حکومت نے طالبان کی شمالی صوبہ فراہ کے دارالحکومت کی جانب پیش قدمی روکنے کیلئے امریکی فضائیہ سے مدد مانگ لی ہے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق طالبان نے پشت کوہ کے اہم فوجی اڈے پر حملے کے بعد ہموی گاڑیاں اور ٹینک بھی قبضے میں لے لئے ہیں اور تادم تحریر صوبہ فراہ کے دارالحکومت کی طرف پیش قدمی جاری تھی۔ جبکہ انہوں نے ہرات سے فراہ کا زمینی راستہ بھی کاٹ دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان نے گزشتہ رات صوبہ فراہ میں واقع پشت کوہ کے فوجی اڈے پر حملہ کیا اور شدید لڑائی کے بعد فوجی اڈے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ افغان وزارت داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ طالبان کے ایک حملے میں 20 سیکورٹی اہلکار مار ے اور پانچ کو طالبان نے یرغمال بنالیا ہے۔ دوسری جانب طالبان کے جنوب مشرقی افغانستان کیلئے ترجمان قاری یوسف احمدی کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پشت کوہ کے فوجی اڈے سے بڑی تعداد میں اسلحہ طالبان کے ہاتھ لگا ہے۔ اب طالبان فراہ کے تقریباً ساٹھ فیصد سے زائد حصے پر قابض ہوگئے ہیں اور صوبہ فراہ کے دارالحکومت فراہ کی جانب پیش قدمی شروع کی جائے گی۔ علاقے سے منتخب ہونے والے رکن پارلیمان داد اللہ قانع کا کہنا ہے کہ افغان سیکورٹی اہلکاروں کی لاشیں وصول کرنے کیلئے طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور مقامی قبائل کے کہنے پر طالبان لاشیں حوالے کرنے پر راضی ہو جائیں گے۔ دوسری جانب افغان حکومت نے طالبان کی پیش قدمی روکنے کیلئے امریکہ سے فضائی مدد طلب کرلی ہے، تاکہ طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی جاسکے۔ کیونکہ اگر پشت کوہ کے بعد طالبان دوسرے علاقوں پر بھی قابض ہوگئے تو ہرات کے بعد کابل اور فراہ کا راستہ بھی کٹ جائے گا اور صوبہ فراہ میں طالبان کا قبضہ ہونے کے بعد برف باری ہوگئی تو پھر قبضہ چھڑانا ممکن نہیں ہوگا۔ افغان حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ پشت کوہ پر قبضے میں ایران نے افغان طالبان کی مدد کی ہے۔ کیونکہ ایران کی مدد کے بغیر پشت کوہ پر قبضہ طالبان کیلئے مشکل تھا۔ افغان وزارت دفاع کے ترجمان جاوید احمد غفور کا کہنا ہے کہ حملے میں 30 سے زائد سیکورٹی اہلکار مارے گئے ہیں جبکہ 29 سے زائد کو اغوا کرلیاگیا ہے۔ طالبان نے انتہائی منظم طریقے سے حملہ کیا، جس سے ظاہر ہورہا ہے کہ اس حملے میں افغان طالبان کو ایران کی حمایت حاصل تھی۔ افغان طالبان کے مرکزی ترجمان زبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ حملے میں 30 سیکورٹی اہلکار مارے گئے، جبکہ 20 سے زائد کو یرغمال بنایا گیا ہے۔ انہوں نے افغان وزارت دفاع کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ افغان سیکورٹی اہلکار طالبان کا مقابلہ نہیں کر سکتے، اس لئے ایران کی مدد کا الزام لگایا جارہا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایرانی پاسداران انقلاب کے اہم لوگوں پر پابندیوں کے بعد سے افغان حکومت اپنی ناکامی چھپانے کیلئے اس طرح کے بیانات دے رہی ہے۔ ’’امت‘‘ کے کابل میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان نے پیر اور منگل کی درمیانی شب گیارہ بجے پشت کوہ کے فوجی مرکز پر حملہ کیا اور دو بجے تک پورے فوجی اڈے پر قبضہ کرلیا۔ اس حملے میں 500 طالبان نے حصہ لیا، جن میں ہرات اور نمروز سے آنے والے جنگجو بھی شامل تھے۔ طالبان اپنے ساتھ ہموی گاڑیاں اور دو سو سے زائد کلاشنکوفیں بھی لے گئے ہیں۔ جبکہ رات کی تاریکی کی وجہ سے امریکا افغان حکومت کی مدد نہیں کر سکا۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق افغان حکومت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر طالبان کو نہ روکا گیا تو وہ نمروز میں بھارت کی جانب سے بنائے گئے ڈرائی پورٹ پر بھی قبضہ کرلیں گے، جو چاہ بہار بندرگاہ سے آپریٹ کیا جارہا ہے اور پانچ نومبر سے امریکہ کی جانب سے لگائی جانے والی پابندی کی وجہ سے اب بند ہو رہا ہے۔ ذرائع کے بقول افغان طالبان ایک طرف امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی تیاری کر رہے ہیں تو دوسری جانب انہوں نے افغانستان بھر میں حملوں میں تیزی پیدا کردی ہے۔ افغان طالبان نے شمالی صوبہ پروان میں این ڈی ایس کے چار مغوی اہلکاروں کو قتل کر دیا ہے۔ طالبان نے ان کو چند روز قبل اغوا کیا تھا۔ ان میں سے دو اہلکاروں نے طالبان کے رہنمائوں کے قتل کی منصوبہ بندی کا اعتراف کیا تھا۔ جنہیں طالبان نے مقدمہ چلانے کے بعد قتل کردیا۔ طالبان نے چاروں افراد کے این ڈی ایس کے کارڈز جاری کر دیئے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More