نواز فیملی کی ضمانت کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کا عندیہ

0

اسلام آباد(خبرنگارخصوصی/مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں شریف خاندان کی ضمانت کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کا عندیہ دیاہے ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسلام آبادہائیکورٹ کے فیصلے پر نیب کی اپیل پرسماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ بظاہر سزاؤں سے متعلق ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں کیوں نہ ہائیکورٹ کا سزا معطلی کا فیصلہ کالعدم کردیں۔ ہائی کورٹ نے فیصلے میں سخت ترین الفاظ استعمال کیے، عدالتی نظیروں کو خاطر میں نہیں رکھا، احتساب عدالت کے فیصلے کا کوئی ایک نقص ہی دکھا دیں۔ نواز خاندان نے کیس میں چار مختلف موقف اپنائے، انکم ٹیکس مقدمات میں ملزم کواثاثےثابت کرنا پڑتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بینچ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل پر سماعت کی۔نیب پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ ہائی کورٹ میں دائر آئینی درخواستوں پر اعتراض کیا تھا کہ آئینی درخواست پر زیر سماعت کیس کے میرٹ پر بحث نہیں ہو سکتی۔ ملزم کی زندگی خطرے میں ہوتو ہی سزا معطل ہو سکتی ہے یا اپیل عرصے تک مقرر نہ ہو تو حقائق پر بات ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہم خواجہ حارث صاحب کو سن لیتے ہیں جن کا کہنا تھا کہ کامیاب اینجوپلاسٹی پرمبارکباد پیش کرتا ہوں، آپ کو آرام کرلینا چاہیے تھا ۔ مقدمے کی سماعت کسی اور دن کے لیے مقرر کردیں۔چیف جسٹس نے کہا یہ مقدمہ ایک فرد کا نہیں بلکہ عدالتی نظام میں بہتری کا معاملہ ہے، اس لئے آیا ہوں، یہ قانون کی تشریح کا معاملہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹرز نے آرام کا مشورہ دیاہے اور کام سے روکا لیکن عدالتی ذمہ داریوں سے کیسے بری ہو سکتا ہوں، اہم ترین معاملہ ہونے کے باعث سماعت کر رہا ہوں۔خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل پر آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام لگایا گیا، کہا گیا ایون فیلڈ فلیٹس نواز شریف کے ہیں۔ اس کیس کے فیصلے اصول پر مبنی ہیں، اصول یہی ہے کہ جہاں ضرورت ہو وہاں ضمانت دی جاتی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہائی کورٹ کا پہلا حکم نامہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا تھا ، اپیل سنی جاتی تو چند دن میں فیصلہ ہو سکتا تھا لیکن سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کی تھی۔ ہائی کورٹ نے فیصلے میں سخت ترین الفاظ استعمال کیے، عدالتی نظیروں کو خاطر میں نہیں رکھا، اپنے فیصلے میں قیاس آرائیوں اور شواہد کا ذکر کیا، کیا سزا معطلی کا فیصلہ ایسا ہو سکتا ہے۔ ہائی کورٹ کو پہلے اپیل پر فیصلہ کرنا چاہیے تھا، جائزہ لیں گے ہائی کورٹ کس حد تک جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاناما کیس تو احتساب عدالت جانا ہی نہیں چاہیے تھا، عدالت کو خود بھی فیصلے کا اختیار تھا لیکن سپریم کورٹ نے معاملہ ٹرائل کورٹ بھجوا کر بہت مہربانی کی۔ نواز خاندان نے کیس میں چار مختلف موقف اپنائے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ اثاثے نوازشریف کے بڑے بیٹے کے ہیں۔چیف جسٹس نےکہا اثاثے انہی کے ہیں اڑ کر تو نہیں آگئے ؟ من و سلویٰ تو نہیں اتر رہا تھا، درختوں کے ساتھ پیسے تو نہیں لگے تھے۔خواجہ حارث نے کہا کہ مان لیں اثاثے میرے موکل کےہیں ،ثابت تونیب نے کرنا تھا۔چیف جسٹس نےکہا کہ آپ کا ثابت نہ کرنا تو منفی تاثر پیدا کرتا ہے جس کا جواب دیتےہوئے خواجہ حارث نےکہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ ملزم نے ثابت نہیں کرنا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انکم ٹیکس مقدمات میں ملزم کواثاثےثابت کرنا پڑتے ہیں۔بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 12 نومبرتک ملتوی کردی۔
اسلام آباد(نمائندہ امت)اسلام آبادکی احتساب عدالت نمبر2کے جج محمد ارشد ملک کی عدالت میں دائرفلیگ شپ ریفرنس میں گزشتہ روز سابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف عدالت میں پیش ہوئے ، جہاں کیس کی سماعت کے دوران ان کے وکیل خواجہ حارث نے تفتیشی افسرکامران پر جرح شروع کی۔ محمد کامران کاکہناتھاکہ نواز شریف نے اپنے بیٹوں کے نام پر جائیداد بنائی۔ اس دوران خواجہ حارث کے معاون وکیل کا بار بار اعتراض کرنے پر جج محمد ارشدملک نے سخت برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ اتنے لمبے لمبے اور باربار اعتراضات نہیں لکھوائوں گا،بیان کے دوران بھی اعتراضات کرتے ہیں اور پھر وہی سوالات جرح میں بھی دہراتے ہیں،بے شک خواجہ حارث کو بلا لیں میں ان سے بات کروں گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More