ایس اے اعظمی
ڈیمو کریٹک پارٹی الحان سے تعلق رکھنے والی دو مسلم خواتین امریکی کانگریس کی رکن بن گئی ہیں۔ فلسطین نژاد رشیدہ طالب اور صومالی نژاد الحان عمر نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ امریکہ کے وسط مدتی انتخابات میں خواتین امیدواروں کی ریکارڈ شرکت کو صدر ٹرمپ کی اخلاقی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ خواتین کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ تضحیک آمیز رہا ہے۔ جبکہ وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹس نے ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کو زبردست جھٹکا دیا ہے۔ ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹس نے اکثریت حاصل کرلی ہے، جبکہ سینیٹ پر ریپبلکن کا تسلط برقرار تو ہے لیکن یہاں ریپبلکن کے مقابلہ میں ڈیمو کریٹس کی نشستوں میں خوشگوار اضافہ ہوا ہے اور سینیٹ میں ڈیموکریٹس اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ صدر ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک لانے کی ریکوزیشن دے سکتے ہیں یا ان کیخلاف تحقیقات کا آغاز بھی کرواسکتے ہیں۔ امریکی تجزیہ نگاروں کے مطابق وسط مدتی الیکشن میں ڈیموکریٹس کی کامیابی کو دیکھ کر صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی بولتی بند ہوگئی ہے۔ وہ ان انتخابات کے نتائج کے بعد کوئی خطاب نہیں کرنا چاہتے، البتہ ان کا ایک سطری تہنیتی پیغام ضرور ٹویٹر پر ابھرا ہے۔ سی این این کا کہنا ہے کہ مڈ ٹرم الیکشن کے نتائج کو ٹرمپ کی صدارت کا دو سالہ ریفرنڈم سمجھا جانا چاہئے، جس کے اثرات 2020ء کے صدارتی الیکشن پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ امریکی ایوانوں سے آنے والی اطلاعات میں ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ ایوان نمائندگان کے الیکشن میں دو امریکی مسلمان خواتین امیدوار بھی کامیاب ہوئی ہیں جن میں ایک مسلم خاتون رشیدہ طالب اور دوسری مسلم خاتون الحان عمر ہیں۔ الحان عمر نے امریکی وسط مدتی الیکشن میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور 78.4 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں۔ جبکہ ان کی مخالف ریپبلکن امیدوار جنیفر زیلی نسکی محض 21.6 فیصد ووٹ ہی حاصل کرپائیں۔ ڈیٹرائٹ پریس نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ رشیدہ طالب نے الیکشن میں شاندار کارکردگی دکھائی ہے۔ اگرچہ ریپبلکن کی ہمت نہیں ہوئی کہ ان کیخلاف امیدوار کھڑا کرے، لیکن انہوں نے دو مخالفین کے مقابلے میں 92.28 فیصد ووٹ حاصل کرکے نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ رشیدہ طالب کا کہنا ہے کہ وہ حسب سابق ارض فلسطین اور فلسطینیوں کے مصائب کو اُجاگر کرنے کیلئے کوئی دقیدہ فروگزاشت نہیں کریں گی۔ امریکی جریدے سان فرانسسکو کرونیکل نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ پہلی مسلمان خاتون امیدوار رشیدہ طالب کا آبائی تعلق ارض فلسطین سے ہے۔ ان کے والدین امریکا آئے تھے اور راشدہ یہیں ڈیٹرائٹ میں پیدا ہوئی ہیں۔ جبکہ دوسری کامیاب امیدوار الحان عمر کا تعلق صومالیہ سے بتایا جاتا ہے۔ ان کی عمر 36 برس ہے اور وہ 1982 میں صومالی دار الحکومت موغادیشو میں پیدا ہوئیں۔ مشی گن کے تیرہویں کانگریشنل ڈسٹرکٹ سے کھڑی ہونے والی مسلمان امیدوار رشیدہ طالب کی کامیابی کی خاص بات یہ بھی ہے کہ ان کے مقابلے میں ری پبلکن پارٹی نے کوئی امیدوار نہیں کھڑا کیا تھا۔ جبکہ دوسری کامیاب امریکی مسلمان رکن کانگریس منی سوٹا پانچویں ضلع سے ہے، جہاں کی سیٹ سابق مسلمان رکن کیتھ ایلی سن نے چھوڑی تھی، جو اس وقت اپنی مقبولیت کے بل پر اسٹیٹ اٹارنی جنرل کی سیٹ پر جارہے ہیں۔ امریکی مسلمان خاتون رشیدہ طالب ایک منجھی ہوئی قانون دان اور متحرک سماجی رہنما بھی ہیں ،جو 2008 میں مشیگن اسٹیٹ کی مقننہ کی رکن منتخب ہوچکی ہیں اور امریکی سیاسی حلقوں میں کافی اہمیت اور احترام کا مقام رکھتی ہیں۔ رشیدہ طالب کی سیاسی و انتخابی مہم کے چیدہ نکات میں ان کا موقف رہا ہے کہ وہ امریکی عوام کیلئے ٹیکسوں کی شرح میں کمی لائیں گی اور بڑی کارپوریشنز اور صنعتی اداروں کیلئے ٹیکسوں کی شرح بڑھوائیں گی اور مزدوروں کی کم از کم اجرت کی شرح 15 ڈالرز فی گھنٹہ تک بڑھوانا چاہتی ہیں۔ ادھر منی سوٹا سے کانگریسی رکن بننے والی ڈیمو کریٹس کی باحجاب مسلمان خاتون رہنما الحان عمر کا تعلق صومالیہ سے بتایا گیا ہے، جو محض 14 برس کی عمر میں جنگی منظر نامہ سے نکل کر امریکا منتقل ہوئی تھیں اور انہوں نے اپنے متحرک سیاسی سفر میں تقریبا وہی سیاسی اور سماجی بیانات دیئے تھے، جو رشیدہ طالب کا تھا۔ لیکن ان نکات میں ایک اضافہ نکتہ یہ بھی تھا کہ الحان عمر چاہتی ہیں کہ ان کی اسٹیٹ میں بالخصوص اور امریکا بھر میں کالجوں کی ٹیوشن فیس معاف کی جائے اور تمام طلبا و طالبات کو مفت میں کالجز تک تعلیم دی جائے۔ عالمی نیوز پورٹل الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں کانگریس رکن بننے والی دو مسلمان خواتین کی کامیابی کو بڑی پیش رفت قرار دیا ہے اور اس امر کی اُمید ظاہر کی ہے کہ دونوں خواتین کانگریس میں امریکی مسلمانوں کیلئے بہترین سفیر کا کردار ادا کریں گی۔ واضح رہے کہ امریکا کے وسط مدتی انتخابات سے محض دو روز قبل دو امریکی انجمنوں نے اپنی جائزہ اور تحقیقی رپورٹوں میں خبر دار کیا تھا کہ امریکی گورے مسلمانوں کے بارے میں شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ لاس اینجلس ٹائمز نے دونوں امریکی سماجی انجمنوں ’’امریکن مسلم انسٹیٹیوشن‘‘ اور ’’نیو امریکا فائونڈیشن‘‘ کے حوالے سے اپنی تحقیقی رپورٹ میں مسلمانوں کیخلاف امریکی معاشرے میں عدم برداشت کے رویوں کو اُجاگر کیا تھا اور ثابت کیا ہے کہ ہر پانچ میں سے دو امریکیوں کا عقیدہ ہے کہ اسلام امریکی معاشرے سے مطابقت نہیں رکھتا اور امریکا میں موجود مسلمان، گورے امریکیوں کی طرح امریکا سے ویسی محبت نہیں رکھتے جیسی محبت رکھنے کا حق ہے۔ مسلم سول رائٹس گروپس اور سب سے بڑی مسلمانوں کی تنظیم ’’کیئر‘‘ نے بھی بتایا ہے کہ ملکی سیاسی اسٹیبلشمنٹ سمیت میڈیا کو بخوبی معلوم ہے کہ امریکا میں مسلمانوں سے نفرت اور تعصب کا نسل پرستانہ رویہ رکھا جاتا ہے۔ خلیجی نیوز پورٹل الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکی تنظیم ’’مسلم ایڈوکیٹ‘‘ نے ایک تازہ رپورٹ میں تصدیق کردی ہے کہ امریکا میں سیاسی امیدواروں کی جانب سے مسلم مخالف جذبات اور نسل پرستی کا مظاہر ہ کرنا عام بات ہے۔ امریکا کے وسط مدتی الیکشن میں ڈیموکریٹس نے نا صرف ایوان نمائندگان میں اکثریت حاصل کرلی ہے بلکہ سینیٹ میں بھی اپنی نشستوں میں مناسب اضافہ کیا ہے جو ریپبلکن کیلئے مسائل کا سبب بنے گا۔ وائس آف امریکا نے بتایا ہے کہ ڈیمو کریٹس کی شاندار کارکردگی سے یہ بھی ہوا ہے کہ چار ریاستوں کے گورنرز کی سیٹس ڈیموکریٹس نے حاصل کرلی ہیں جو ریپبلکن کیلئے شدید جھٹکا ہے۔ سینیٹ میں اس الیکشن سے قبل ڈیموکریٹس کی محض 23 سیٹیں تھیں اور ریپبلکن کے پاس 42 ارکان تھے، لیکن وسط مدتی الیکشن کے بعد اب ڈیموکریٹس کی 19 سیٹیں بڑھی ہیں اور ان کی تعداد 42 ہوچکی ہے، جبکہ ری پبلکن کی سیٹوں میں 9 ارکان کا اضافہ ہوا ہے اور سینیٹ میں ان کی نشستوں کی تعداد 42 سے بڑھ کر 51 ہوچکی ہیں۔ امریکی جریدے یو ایس اے ٹوڈے نے بتایا ہے کہ اس الیکشن کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں خواتین نے بہت بڑی تعداد میں امیدوار بن کر حصہ بٹایا ہے، جو اب تک کا امریکی انتخابات کا ایک ریکارڈ ہے۔ امریکی صحافی سارہ گروسمین نے بتایا ہے کہ ایوان نمائندگان کیلئے 237 خواتین انتخابی اکھاڑے میں اُتری ہیں اور سینیٹ کے الیکشن میں 23 خواتین نے مقابلہ کا بگل بجایا ہے، جبکہ ڈیموکریٹس نے 185 خواتین کو اپنا امیدوار بنایا ہے اور اس کے مقابلہ میں ریپبلکن کی جانب سے صرف 52 خواتین کو انتخابی میدان کا اہل سمجھا گیا ہے۔