امت رپورٹ
مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی اس وقت پارٹی قائد شہباز شریف کو رہا کرانے پر مرتکز ہے۔ اگر سپریم کورٹ کی جانب سے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم کی رہائی کا فیصلہ معطل کیا گیا تو اسے عدالت ہی میں چیلنج کیا جائے گا۔ لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ نون لیگ سمیت اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کسی احتجاجی سیاست کیلئے تیار نہیں۔ شہباز شریف پارٹی پر سے دبائو کم کرنے کیلئے مقتدر اداروں سے روابط کیلئے کوشاں ہیں اور اس کیلئے ناراض لیگی رہنما چوہدری نثار سے رابطے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیوں نہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا جائے۔ تاہم پارٹی قائد کی رہائی کے فیصلے کو معطل کئے جانے کے عندیے کے بعد نواز لیگ کی جانب سے وہ بے چینی نظر نہیں آئی، جو شہباز شریف کی گرفتاری کے موقع پر نظر آئی تھی، کہ پارٹی صدر کے لیے نون لیگ نے سڑکوں پر آنے کی دھمکی دے دی تھی۔ لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ فی الوقت پارٹی کی حکمت عملی یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے موجودہ سربراہ کو رہائی کرایا جائے، کیونکہ وہ قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور قائد حزب اختلاف بھی ہیں۔ اگر نواز شریف اور مریم کی رہائی کا ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کیا گیا تو اسے عدالت ہی میں چیلنج کیا جائے گا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے حق میں صرف رانا ثناء اللہ نے آواز اٹھائی ہے اور چیف جسٹس کے ریمارکس پر تبصرہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت نون لیگ سمیت اپوزیشن کاکوئی بھی رکنِ پارلیمنٹ احتجاجی سیاست کے لیے تیار نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت مکمل طور پر ابہام کا شکار نظر آتی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نون لیگ کی تمام تر توجہ اپنی قوتوں کو مجتمع رکھنے اور اسے ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رکھنے پر ہے۔ بیشتر لیگی ارکان پنجاب اسمبلی کے اندر ہی حزب مخالف کا کردار ادا کرتے نظر آئیں گے۔ دوسری جانب شہباز شریف کی پوری کوشش ہے کہ کسی بھی طرح مقتدر قوتوں سے رابطے استوار کئے جائیں، تاکہ ان کی جماعت پر سے دباؤ کم ہو سکے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک بار پھر چوہدری نثار علی خان کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے بقول پارٹی سے معاملات طے ہونے کے بعد چوہدری نثار پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھا لیں گے۔ ادھر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ممکنہ گرفتاری کی خبروں کے بعد پارٹی قیادت سنبھالنے کے لیے نون لیگ کے کئی گروپ متحرک ہو گئے ہیں۔ لہذا ایسے نازک حالات میں پارٹی کو متحد رکھنا بھی پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔ جبکہ شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد نواز شریف کی دوبارہ ممکنہ گرفتاری کی چہ مگوئیاں سُن کر مسلم لیگ ن میں ایک فارورڈ بلاک بننے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پارٹی قیادت سنبھالنے کے لیے مسلم لیگ ن کے اندر ہی تین گروپ متحرک ہیں۔ ایک گروپ خواجہ آصف کا ہے۔ دوسرا شاہد خاقان عباسی اور تیسرا رانا تنویر کے حق میں ہے۔ کچھ پرانے نواز لیگی رہنما بھی کوششوں میں ہیں کہ چند دنوں کے اندر چودھری نثار اور نوازشریف میں اختلافات اور فاصلوں کو کم کیا جائے اور پارٹی کو مشکل سے نکالنے کے لیے سابق وزیر داخلہ کا کندھا استعمال کیا جائے۔ دوسری جانب منگل کو دونوں بھائیوں کی ملاقات بھی ہوئی ہے۔ نواز شریف نے منسٹرز انکلیو اسلام آباد میں شہباز شریف سے ملاقات کی، جس میں نیب کیسز پر مشاورت کی گئی۔ ملاقات میں ملک کی سیاسی صورتحال، نیب کیسز، پارٹی امور اور آئندہ کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے متعلق حکمت عملی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے نون لیگ کو مشترکہ جدوجہد کی دعوت دی گئی تھی، لیکن دونوں جماعتوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم نہیں ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری بھی اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ لیکن وہ بھی کسی احتجاج کا اشارہ نہیں دے رہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کاساتھ نہ دینے کی وجہ سے نون لیگ بھی مشکل میںہے۔ اگرچہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن عددی اعتبار سے طاقت ور نظر آتی ہے اورسینیٹ ایسا ایوان ہے، جس میں تحریک انصاف کو اکثریت حاصل نہیں۔ سینیٹ میں تحریک انصاف کو قانون سازی اور دیگر معاملات پر حزب مخالف کا ساتھ درکار ہو گا۔ بلوچستان میں تحریک انصاف کے اتحادیوں کی حکومت ہے۔ صرف سندھ میں تحریک انصاف اپوزیشن میں بیٹھی ہے۔ تحریک انصاف کے سامنے ایک منقسم اپوزیشن ہے۔ بڑی عددی قوت رکھنے کے باوجود متضاد سیاسی مفادات کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کا ساتھ دینے میں دقت محسوس کرتی ہیں۔ تحریک انصاف کے سامنے اس وقت کوئی بڑا سیاسی چیلنج نہیں، جو اس کی حکمرانی میں حائل ہو سکے یا رکاوٹ بن سکے۔ تحریک انصاف کی خوش قسمتی ہے کہ حزب اختلاف کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اس وقت اپنے بچاؤ کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو تقریباً ایک ہی نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے۔ اس وقت دونوں جماعتیں اس قابل نہیں کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اپنا سکیں یا اقدام اٹھا سکیں۔ اگلے کچھ عرصے میں نیب کی زد میں آنے کی وجہ سے دونوں جماعتوں کی حکمت دفاعی نوعیت کی ہو گی۔ جس سے تحریک انصاف کی حکومت کو کسی خاص مشکل کا سامنا نہیں ہو گا۔ بظاہرمقتدر قوتیں بھی تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کو پورا موقع دیا جائے، تا کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اپنے ایجنڈے پر عملدر آمد کرتے ہوئے اپنے وعدے پورے کر سکے۔ پاکستان کی پارلیمانی اور سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حزب مخالف اس وقت تک حکومت کا زیادہ نقصان نہیں کر پاتی جب تک مقتدر قوتیں ساتھ نہ ہوں۔ اس وقت حزب مخالف اس تائید و حمایت سے محروم ہے۔ پیپلز پارٹی کے سامنے اس وقت دو بڑے چیلنج ہیں۔ ایک تو سندھ میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا اور دوسرا پورے ملک میں اپنی کھوئی ہوئی حمایت اور مقبولیت کی بحالی۔ بالخصوص سیاسی جماعت پنجاب میں اسے اپنے وجود کو بحال کروانا ہے۔ یہاں اسے تحریک انصاف اور نواز لیگ دونوں سے مقابلہ کرنا ہے۔ پی پی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حزب مخالف میں ہونے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی بی ٹیم بن جائے یا اپنی سیاسی قسمت کو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ نتھی کرلے۔ لیکن پی پی کو سندھ حکومت کی وجہ سے تحریک انصاف کا ساتھ دینا ہے۔