کراچی (اسٹاف رپورٹر)سندھ ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق دائر درخواستوں پرمقدمات کے تفتیشی افسران کے تبادلے روکنے اورایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس کو لاپتہ افراد کے معاملات خود دیکھنے کا حکم دیا ہے۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے ریماکس دیئے کہ آئی او تبدیل ہونے سے کیسز تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔ ٹرانسفر کرنے سے پہلے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ بدھ کو جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کی سربراہی میں 2رکنی بینچ کے روبرو درجنوں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اہلخانہ کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ لاپتہ افراد کی جے آئی ٹیز سے متعلق حکم پر عمل درآمد نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایس ایس پی کورنگی سے جواب طلب کرلیا۔ ایک لاپتہ شہری کی اہلیہ نے کہا کہ میرا شوہر 2017سے لاپتہ ہے ،ایک بھی جی آئی ٹی سیشن نہیں ہوا۔ لاپتہ نوجوان کی والدہ نے عدالت میں دہائیاں دیتے ہوئے کہا کہ میرا بیٹا ساجد علی 4سال سے لاپتہ ہے۔ ایک لاپتہ نوجوان کے والد نے کہا کہ میرا ایک ہی بیٹا اور 6 بیٹیاں ہیں ،گھرمیں کمانے والا کوئی نہیں۔درخواست گزار حنیف نے آبدیدہ ہوتے ہوئے عدالت سے کہا مجھے بس اتنا بتادیں کہ میرا بیٹا مر گیا کہ زندہ ہے۔ ایک لاپتہ شہری کی والدہ کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا جاوید 2سال سے لاپتہ ہے۔ بعد ازاں عدالت نے آئی جی سندھ، ڈی جی رینجرز اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔ دریں اثنا جسٹس حسن اظہر رضوی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے پولیس میں افسران کی تقرری تبادلوں کے بارے میں قانون سازی سے متعلق آئی جی سندھ کلیم امام اور سیکریٹر ی قانون سمیت دیگر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر6 دسمبر تک جواب داخل کرنے کی ہدایت کردی۔ علاوہ ازیں جسٹس سید حسن اظہر رضوی کی سربراہی میں جسٹس مسز اشرف جہاں پر مشتمل 2رکنی بینچ کے روبرو کراچی کے علاقے گڈاپ میں ریسرچ کیلئے حاصل کی گئی زمین پر قبضہ سے متعلق سابق وائس چانسلر جامعہ کراچی ڈاکٹر ظفر سعید سیفی کیجانب سے دائر درخواست کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر عاصم اقبال نے موقف اپنایا کہ 4 ایکڑ زمین ملیریا اور ڈینگی کی ادویات کی تیاری کیلئے ریسرچ سینٹر کے قیام کیلیے جگہ حاصل کی گئی تھی۔ لینڈ مافیا نے سرکاری افسران کے ساتھ مل کر اس پر قبضہ کرلیا۔ عدالت نے سرکاری افسران سے مکالمہ میں کہا کہ ایک سائنسدان نے ریسرچ کیلئے زمین لی ۔آپ نے اس پر بھی قبضہ کرادیا۔ عدالت نے ریماکس دیئے ہم جواب سے مطمئن نہ ہوئے تو معاملہ نیب کو بھیجیں گے۔ عدالت نے ڈپٹی کمشنر ملیر اور مختیار کار کو مکمل ریکارڈ کے ساتھ 29نومبر کو طلب کرلیا۔جبکہ جسٹس عرفان سعادت خان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے محکمہ سندھ پولیس ریزرو کے سابق 65ملازمین کی درخواست پر آئی جی سندھ سمیت دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 15نومبر تک جواب داخل کرنے کا حکم دے دیا۔