محتسب دفتر-کے دی اے حکام کے گٹھ جوڑ سے120پلاٹ الاٹ کرنے کا انکشاف
کر اچی (رپورٹ: ارشاد کھوکھر) صوبائی محتسب اعلیٰ کی دفتر اور کے ڈی اے افسران کی ملی بھگت سے 120 پلاٹ الاٹ کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ جب کہ تفتیشی افسران کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور جعلی دستاویزات پر پلاٹ الاٹ کرنے کی انکوائری کی اجازت مانگنے پر اینٹی کرپشن کا اعلیٰ ترین انتظامی افسر ہل گیا ۔ انہوں نے ماتحت افسران کو انکوائری شروع کرنے کی اجازت دینے کے انکار کرتے ہوئے مذکورہ معاملے کی چھان بین کا معاملہ صوبائی محتسب اعلیٰ کے دفتر کو ارسال کردیا ۔ صوبائی محتسب کے دفتر کے احکامات پر 120سے زائد افراد کو پلاٹ الاٹ ہوچکے ہیں ،جبکہ ڈی جی محتسب اعلیٰ سیکریٹریٹ کا مو قف ہے کہ قانون کے مطابق اس نوعیت کے احکامات صوبائی محتسب کو جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس ضمن میں باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو شکایات موصول ہوئی تھی کہ صوبائی محتسب اعلیٰ دفتر اور کے ڈی اے افسران ملی بھگت سے اختیارات کا استعمال کے سا تھ جعلی دستاویزات کے بنیاد پر مختلف افراد کو کے ڈی اے کے پلاٹ الاٹ کرچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس ضمن میں اینٹی کرپشن کے متعلقہ حکام نے جب ابتدائی چھان بین کی تو معلوم ہوا ہے کہ صوبائی محتسب اعلیٰ کے دفتر کے احکامات پر 120سے زائد پلاٹ الاٹ ہوچکے ہیں۔ اینٹی کرپشن کے متعلقہ افسران نے اس ضمن میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی مجاز اتھارٹی کو فائل ارسال کرتے ہوئے یہ سفارش کی تھی کہ صوبائی محتسب اعلیٰ آفس کے گریڈ 17رجسٹرار افتخار حسین اور کے ڈی اے کے افسران کے خلاف انکوائری اوپن کرنے کی اجازت دی جائے۔ کیونکہ ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت برقرار کیا جارہا ہے ،جس میں صوبائی محتسب اعلیٰ کے دفتر کو آگے رکھ کر سب کچھ کیا جارہا ہے، اس ضمن میں الزام لگایا گیا ہے کہ صوبائی محتسب اعلیٰ کے دفتر کو اس حوالے سے شکایات موصول ہونے کے بعد اختیارات کا ناجائز استعمال اور متعلقہ پرانے ریکارڈ کی حوالے سے تصدیق کرائے بغیر کے ڈی اے حکام کو پلاٹ الاٹ کرنے کے احکامات جاری کئے جاتے ہیں ،جس پر ملی بھگت میں شامل کے ڈی اے کے افسران صوبائی محتسب اعلیٰ کے احکامات کی بنیاد پر پلاٹ الاٹ کرتے رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا اس ضمن میں جو 120سے زائد پلاٹ الاٹ کرائے گئے ہیں ،وہ کراچی کے مختلف علاقوں میں پلاٹ کے عیوض الاٹ کرائے گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی محتسب اعلیٰ کو تمام صوبائی محکموں اور اداروں کے انتظامی امور وغیرہ کے حوالے سے ہونے والی ناانصافی کی شکایات وغیرہ کے امور کی چھان بین کرکے متعلقہ محکموں کی انتظامیہ کو ازالہ کرنے کے اختیارات حاصل ہیں لیکن اس نوعیت کے اختیارات حاصل نہیں ہے ۔ ذرائع کا کہنا تھاکہ اس نوعیت کی شکایات میں صوبائی محتسب اعلیٰ کو براہ راست خود احکامات جاری کرنے کے بجائے اینٹی کرپشن انکوائری کرکے رپورٹ طلب کرسکتا ہے کیونکہ یہ کرپشن کے امور ہیں جبکہ اینٹی کرپشن کے حکام کو قانون کے مطابق یہ اختیارات حاصل ہیں کہ انہیں کسی بھی صوبائی محکمہ یا ادارے میں کرپشن کی اطلاع یا شکایت موصول ہوتو وہ کارروائی کرسکتے ہیں ۔اس ضمن میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت افسران اوپن انکوائری کی اجازت مانگنے کیلئے سمری اینٹی کرپشن کے مجاز اتھارٹی (اعلیٰ افسر)کو ارسال کی تو انہوں نے ماتحت افسران کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے وہ فائل صوبائی محتسب اعلیٰ کے افسر کو ارسال کرتے ہوئے درخواست کی کہ وہ خود اس معاملے کی انکوائری کریں۔ اس ضمن میں موقف جاننے کے لئے صوبائی محتسب اعلیٰ اسد اشرف ملک سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے بات چیت نہیں ہوسکی تاہم رابطہ کرنے پر صوبائی محتسب اعلیٰ سیکریٹریٹ ڈائریکٹرجنرل آغا پرویز نے امت سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ 1991 کے ایکٹ کے مطابق صوبائی محتسب کو کسی درخواست گزار کے ساتھ ناانصافی کی صورت میں اس نوعیت کے احکامات جاری کرنے کے اختیارات حاصل ہیں اور جس کے لئے پہلے جس محکمہ یا ادارے کے خلاف شکایت ہوئی ہے اس کا پورا موقف اور ریکارڈ دیکھا جاتا ہے ، چھان بین اور سماعت کے بعد فیصلہ دیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ صوبائی محتسب کے فیصلے سے کسی کو اختلاف سے تو وہ گورنر کو اپیل کرسکتا ہے جب کہ اس حوالے سے اپیلٹ اتھارٹی موجود ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی محتسب سیکریٹریٹ کے کسی افسر یا ملازم پر کرپشن کا الزام ہے تو اس حوالے سے اینٹی کرپشن کارروائی کرسکتا ہے لیکن محتسب سیکریٹریٹ میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔