بیجنگ (وقائع نگار خصوصی) چین میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ منہ سے نکلا جملہ اور شادی کے لئے بنایا گیا ہار ایک جیسے ہوتے ہیں۔ کبھی نہ کھبی گلے میں ضرور آتے ہیں۔ عمران خان کے دورہ چین پر بہترین تبصرہ یہی کہاوت ہے۔ یہ دورہ کسی طور پر بھی پاکستانی توقعات، مطالبات،گزارشات اور ترجیحات کو پوراکرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ ہاں۔ معاملہ فہم چینیوں نے پاکستان کے وزیراعظم کو خالی ہاتھ بھیجنا مناسب نہ سمجھا۔ چنانچہ چودہ پندرہ معاہدوں پر دستخط کرکے کچھ ان کی بات رکھ لی اور کچھ وعدہ فردا پر ٹال دیں۔ وجہ کیا تھی؟ وجہ یہ تھی کہ عمران خان اور ان کے گپاگو ٹولہ ساتھیوں نے نواز حکومت کی مخالفت میں سی پیک پر اعتراضات کی بوچھاڑ کی تھی اور دارالحکومت میں126 دن دھرنا دے کر چینی صدر کی آمد کا راستہ مسدود کیا، حالانکہ اس وقت کے چینی سفیر نے کئی بار عمران اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات کرکے دھرنا موٴخر کرنے کی درخواست کی تھی، تاکہ ان کے صدر اپنا دورہ بروقت پورا کرسکیں، لیکن تحریک انصاف اس وقت ایمپائر کے گھوڑے پر سوار تھی۔ اس نے ان گزارشات کو ماننا تو کجا درخور اعتنا بھی نہ سمجھا۔ نواز حکومت کی برطرفی کے بعد چینی حکومت نے سی پیک کے تمام منصوبوں پر کام عملاً روک دیا۔ وہ پریشان تھی کہ پاکستان کا کیا ہوگا؟، اتنی بڑی سرمایہ کاری کو تحفظ کون دے گا؟۔ الیکشن سے پہلے چینی سفیر دارالحکومت اسلام آبا دکے اعلیٰ ترین بیوروکریٹس، باخبر سیاستدانوں اور اخبار نویسوں سے پوچھتے پھرتے تھے کہ اگلی حکومت کس کی بنے گی۔؟ اگر تحریک انصاف کی بنی تو سی پیک کا کیا ہوگا۔؟وہ کہتے تھے کہ ان سے باربار پوچھا جارہا ہے، وہ کیاکریں۔ جواب کہاں سے لائیں؟، ان کی تسلی نہیں ہوتی تھی اور وجہ صاف ظاہر تھی۔ کنٹینر کی سواری سے لے کر سی پیک پر چڑھائی کے میدان میں جس طرح عمران اور ان کے ساتھیوں نے اس منصوبے کے لتے لئے۔ اس نے چینیوں کو پریشان کردیا۔ چنانچہ پہلے مرحلے پر سی پیک کے کام سست ہونے شروع ہوئے پھر آہستہ آہستہ زیرو پر آگئے۔ دوسرے مرحلے میں چینی کمپنیوں سے کہہ دیا گیا کہ وہ پاکستان میں کسی نئے منصوبے کے معاہدے پر دستخط نہ کریں۔ صرف پرانے منصوبے نمٹائیں۔ تیسرے مرحلے میں سی پیک سے وابستہ پاکستانی ماہرین کے دورہ چین میں کمی آنے لگی، جو تواتر سے جاری ہے۔ ایک اہم جامعہ کے سینئر پروفیسر کے بقول پاناما فیصلے کے بعد چینیوں کی بیگانگی بڑھتی گئی۔ مذکورہ پروفیسر سی پیک کے گنے چنے پاکستانی ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ چین کی بعض اعلیٰ جامعات کے ساتھ پاکستان کی کئی جامعات نے مل کر سی پیک پر تحقیقی مشاورت فراہم کرنے کے لئے باہم اسٹڈی گروپ قائم کئے تھے، جن کے اجلاس پاکستان اور چین میں باری باری ہوتے تھے۔ اس اجلاسوں میں شرکت کے لئے ملک بھر سے سی پیک کے چنیدہ ماہرین چین جاتے اور وہاں کئی روزہ کانفرنس میں شرکت کرکے سی پیک میں آنے والی مشکلات اور ان کا حل تلاش کرتے، تاہم نوازحکومت کی برطرفی کے بعد یہ سلسلہ موقوف تو نہیں ہوا، لیکن چین سرد مہری کا شکار ضرور ہوگیا۔ چینیوں نے پاکستانی جامعات اور مختلف وزارتوں کے ماہرین سے صاف صاف کہہ دیا کہ اب وہ مزید میزبانی میں دلچسپی نہیں رکھتے، اگر انہیں آنا ہے تو اپنے خرچے پر آئیں اور اپنے خرچے پر ٹھہریں۔ پروفیسر کے بقول ان کے رابطے میں رہنے والے چینی اعلیٰ حکام اور کاروباری شخصیات ازحد فکر مند تھیں اور تحریک انصاف کی قیادت کے لاابالی رویے کو سنجیدہ اور ٹھوس کوششوں میں رکاوٹ سمجھتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان کے دورہ چین میں بڑے مہذب انداز میں چینی حکام نے ان سے ان تیز و تند بیانات کا ذکرکرکے اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا، جو ماضی میں وہ اور ان کے ساتھی سی پیک کے خلاف دیتے رہے تھے۔ اس عدم اطمینان کا وزیراعظم کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اس لئے ساری قوم نے دیکھا کہ پاکستانی وزیر اعظم کو ایسا کوئی معاشی پیکج نہیں دیا گیا، جس کی توقع لے کر وہ چین گئے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ویسے بھی چین کی مدد کا طریقہ اور ہے۔ وہ کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان اس پر انحصار کرتا رہے، وہ چاہے گا کہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو۔ ایک اہم ذریعے کے بقول شنگھائی میں چینی حکومت نے ایک عالمی سرمایہ کاری کانفرنس کا اہتمام کیا تھا، جس سے وزیر اعظم نے بھی خطاب کیا، تاہم کانفرنس میں شریک کئی اہم چینی سرمایہ کار وزیر اعظم سے علیحدہ ملاقات چاہتے تھے۔ انہوں نے اس سلسلے میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا، جس نے وزیر اعظم سے ان کی علیحدہ میٹنگ کا بندوبست کرادیا۔ ا س میٹنگ میں چین کے کئی بڑے اور نامور اداروں کے سربراہان شریک ہوئے، جو صنعتی اور تعمیراتی شعبے میں پاکستان میں کام کرنا چاہتے تھے اور نئی ٹیکنالوجی پاکستان میں متعارف کرانا چاہتے تھے، تاہم میٹنگ کیلئے بھرپور تیاری نہیں کی گئی۔ اپنی تقریر کی ابتدا میں ہی وزیر اعظم نے کہہ دیا کہ پاکستان میں کرپشن بہت ہے۔ اس سے دیگر پاکستانی حکام پریشان ہوگئے، کیونکہ سرمایہ کار اداروں کے سامنے اپنے ملک میں بھرپور کرپشن کا ذکر کرنا ان کی حوصلہ شکنی کے برابر ہوتا ہے۔ ذریعے کے بقول پورے اجلاس کے دوران وزیر اعظم سیکریٹری کامرس کو مسلسل سیکریٹری انڈسٹریز کہہ کر بلاتے رہے، لیکن ان کی تصحیح کی ضرورت کسی نے نہیں سمجھی۔ اجلاس میں پاکستانی وفد کا رویہ خاصا غیر سنجیدہ تھا۔ وفد کے ارکان بار بار آپس میں اردو میں بات کرتے تھے، بغیر یہ سوچے کہ ایسی ملاقاتوں میں اردو، انگریزی جاننے والے چینی مترجم بھی موجود ہوتے ہیں۔ ایک پاکستانی بیوروکریٹ کا کہنا تھا کہ جس غیر پیشہ وارانہ اندا ز میں چینی سرمایہ کاروں سے میٹنگ کی گئی۔ اس سے ظاہر ہوتا تھاکہ پاکستانی وفد چینی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ذریعے کے بقول وزیر اعظم کا دورہ ایک مدبر کے بجائے ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کا تھا ۔ جس سے سفارت خانے کے وہ حکام خاصے مایوس ہوئے، جنہوں نے اس اجلاس کا بندوبست کیا تھا۔