نجم الحسن عارف
توہین شان رسالت کے جرم میں سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ سے سزائے موت پانے والی اور بعد ازاں سپریم کورٹ سے بری قرار دی گئی آسیہ ملعونہ کی بیرون ملک فرار کی خبروں کے بعد اس کی پاکستان میں موجودگی کے حکومتی موقف نے معاملہ پراسرار بنا دیا ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملتان ایئر پورٹ پر خصوصی طیارے پر آسیہ کو لینے کیلئے آنے والی دو غیر ملکی خواتین میں سے ایک انٹرنیشنل ہیومن رائٹس سے وابستہ ہے اور دوسری کا تعلق ورلڈ میڈیا واچ سے ہے۔ جبکہ پانچ دیگر افراد پاکستان کے سرکاری حکام میں سے تھے۔ ذرائع کے مطابق آسیہ کو رہائی کے بعد ایک اہم یورپی ملک کے سفارتخانے میں رکھا گیا ہے۔ دوسری جانب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ہالینڈ کی پاکستان میں سفیر اپنے ملک جا چکی ہیں۔ تاہم دفتر خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ہالینڈ کی پاکستان میں سفیر اپنے ملک گئی ہوئی ہیں، لیکن وہ ایک دو دن پہلے ہی جا چکی تھیں۔
واضح رہے کہ ہالینڈ کی سفیر کے حوالے سے پچھلے چوبیس گھنٹے میں میڈیا میں یہ خبریں آئی تھیں کہ وہ آسیہ کو لینے ملتان جیل آئی تھیں اور بعد ازاں اسے لے کر ہالینڈ چلی گئیں۔ لیکن دفتر خارجہ کے ذرائع نے ان کی پاکستان سے روانگی کو بدھ کے روز سے پہلے بیان کیا ہے۔ دفتر خارجہ نے آسیہ کی پاکستان سے کسی دوسرے ملک روانگی کی بھی تردید کی ہے۔ جبکہ یہ بھی اہم بات ہے کہ آسیہ ملعونہ کے شوہر عاشق مسیح کا موبائل فون آسیہ کی ملتان جیل سے رہائی کی خبروں کے بعد سے مسلسل بند ہے۔ بدھ اور جمعرات کی درمیان شب سے جب بھی اس کے فون پر رابطہ کیا گیا، یہی جواب آرہا ہے کہ ’آپ کا مطلوبہ نمبر بند ہے، کچھ دیر بعد کوشش کریں‘۔ آسیہ مسیح کی رہائی کے بعد اب تک جن افراد خانہ کی اس سے ملاقات کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، ان میں ملعونہ کا شوہر عاشق مسیح اور اس کی بچیاں شامل ہیں۔ البتہ آسیہ مسیح کے بھائی قرار دیئے جانے والے جوزف ندیم کا موبائل فون اب بھی کھلا ہے اور ساری رات سے لے کر اب تک اس کا فون کسی بھی وقت بند نہیں ہوا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ کسی وقت کسی دوسری کال پر ملا اور کسی وقت اٹینڈ نہیں کیا گیا۔ نمائند امت کی بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اس سے دو مرتبہ بات ہوئی۔ جبکہ جمعرات کے روز گیارہ بجے کے قریب رابطہ ہوا تو اس نے پہلے تو آسیہ یا دوسرے اہلخانہ کے بیرون ملک جانے کی تردید کی اور بعد ازاں کہا کہ وہ بینک جارہا ہے، اسے دو منٹ دیئے جائیں۔ لیکن پھر اس کا فون تادم تحریر اٹینڈ نہیں ہو سکا۔
قبل ازیں بدھ اور جمعرات کی شب ملتان سے ملنے والی اطلاعات میں ذرائع نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ ایک خصوصی طیارے کی آمد سے تقریباً چار گھنٹے قبل ہی ایئر پورٹ پر ہائی الرٹ تھا اور آٹھ بج کر بیس منٹ پر ملتان ایئرپورٹ پر ایک چھوٹے مگر خصوصی طیارے کی لینڈنگ ہوئی۔ اسی دوران آسیہ مسیح کو ملتان جیل سے ایک پراڈو گاڑی پر ایئر پورٹ لایا گیا۔ جہاں خصوصی طور پر لائے گئے طیارے میں دو غیر ملکی خواتین (گوری خواتین) کے علاوہ مزید پانچ افراد تھے۔ جن کے ساتھ آسیہ مسیح کو اگلی منزل پر روانہ ہونا تھا۔ ان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ملتان ایئرپورٹ سے تقریباً پونے دس بجے یہ خصوصی طیارہ آسیہ کو لے کر اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گیا۔ لیکن سرکاری اور حکومتی عہدیداران اس سب باتوں کی تردید کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ پنجاب کے وزیر قانون بشارت راجہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’جیل تک رہائی ہماری ذمہ داری تھی۔ کسی جہاز کے ملتان آنے یا وہاں سے جانے کا ہمارے ساتھ تعلق ہے نہ ہمارے علم میں ہے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ آسیہ بی بی کہاں ہے۔ تو رہائی کے بعد یہ فیصلہ اسے کرنا ہے کہ اس نے کہاں رہنا ہے۔ ہمارے ساتھ انہوں نے یا ان کے خاندان کے کسی فرد نے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔ اگر پنجاب کے کسی ضلع میں انہوں نے اپنے لیے انتظامیہ سے سیکورٹی مانگی ہے تو اس سے بھی میں آگاہ نہیں ہوں۔ البتہ متعلقہ ضلع سے پوچھ کر بتا سکتا ہوں کہ ایسا ہوا ہے یا نہیں‘‘۔ تاہم بعد میں صوبائی وزیر نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔ دوسری جانب صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان سے ’’امت‘‘ نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’آسیہ مسیح پنجاب میں نہیں ہے، لیکن وہ پاکستان سے نہیں گئی‘‘۔ انہوں نے ایک سوال پر زور دے کر کہا ’’مجھے علم نہیں کہ وہ کہاں ہے، لیکن پاکستان سے باہر نہیں گئی ہے‘‘۔
’’امت‘‘ نے دوبارہ ملتان میں آسیہ سے متعلقہ امور پر نظر رکھنے والے ذرائع سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ خصوصی طیارے پر آسیہ کو لینے کے لئے ملتان آنے والی دو گوری خواتین میں سے ایک انٹرنیشنل ہیومن رائٹس سے وابستہ خاتون تھیں اور دوسری ورلڈ میڈیا واچ سے وابستہ تھیں۔ جبکہ پانچ دیگر پاکستان کے سرکاری حکام میں سے تھے۔ ان ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ آسیہ مسیح جس کا پاسپورٹ ابھی نہیں بنا تھا، اسے اس سلسلے میں سہولت دینے کے لئے ایک خصوصی وین بھی جیل آئی تھی۔ تاکہ اسے فی الفور پاسپورٹ دینے کی کوشش کی جا سکے۔ لیکن ان ساری باتوں کو اعلیٰ حکومتی عہدیدار درست قرار نہیں دیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ آسیہ کہیں باہر نہیں گئی، پاکستان میں ہی ہے۔ اس کے باوجود یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں نے تحریک لبیک کے ساتھ کئے گئے معاہدے کے مطابق ابھی تک آسیہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔ نہ ہی آسیہ ملعونہ کے خلاف توہین رسالت کیس کے مدعی قاری محمد سالم کے وکیل غلام مصطفیٰ چوہدری ایڈووکیٹ کی طرف سے دائر کردہ نظر ثانی کی درخواست کی باضابطہ سماعت کی تاریخ مقرر کی جا سکی ہے۔ آسیہ کی بیرون ملک جانے کی خبروں کی حکومت کی اعلیٰ ترین سطحوں سے کی جانے والی تردید کے ساتھ یہ بھی اہم بات ہے کہ تقریباً تمام غیر ملکی خبر رساں اداروں اور بی بی سی اردو تک نے آسیہ کی رہائی کے بعد پاکستان سے باہر چلے جانے کی خبریں دیں۔ ان خبروں کو مزید تقویت یورپی یونین کے صدر کے ٹویٹ نے دی۔ جس میں انہوں نے یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں آسیہ کے خیر مقدم کرنے کا انتظار کرنے کی بات کی تھی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ آسیہ مسیح جب جیل میں تھی تو سب کو معلوم تھا کہ وہ کہاں ہے۔ لیکن اس کی رہائی کے بعد کوئی بھی اس بارے میں یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ وہ کس جگہ ہے۔ دفتر خارجہ سے جڑے ایک اہم رہنما نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جب انہوں نے دفتر خارجہ میں تین ذاتی دوستوں اور اہم ذمہ داروں سے اس بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا اس موضوع پر فون پر بات نہیں کر سکتے۔ البتہ ذاتی سطح پر ملاقات میں بات ہو سکے گی۔ جبکہ یورپی سفارتکاروں سے جڑے معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ آسیہ مسیح کو ایک اہم یورپی ملک کے سفارتخانے میں رکھا گیا ہے۔ ایک سوال پر ان ذرائع کا کہنا تھا کہ کنفرم تو نہیں، لیکن سننے میں آیا ہے کہ اسے ہالینڈ کے سفارتخانے لے جایا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭