روہنگیا مہاجرین کی بنگلہ دیش سےمیانمار واپسی خطرناک قرار
ڈھاکہ(مانیٹرنگ ڈیسک)بنگلہ دیش کے علاقے میں متحرک امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے کے بعد میانمار واپس جانے سے خوفزدہ ہیں۔مغربی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس نومبر میں بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو میانمار میں واپسی کی اجازت دی گئی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی وہاں ان کی شہریت کی ضمانت اور سیکیورٹی کے خدشات تاحال قائم ہیں۔تاہم، دونوں حکومتوں نے تصدیق کی ہے کہ وہ نومبر کے وسط سے بڑے پیمانے پر روہنگیا کی واپسی کا عمل شروع کریں گے جبکہ سماجی کارکنان کا کہنا تھا کہ درحقیقت رخائن پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔42امدادی ایجنسیوں اور سول سوسائٹی گروہوں نے ایک بیان میں اس اقدام کو ’خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ روہنگیا خوفزدہ ہیں کہ اب وہ میانمار واپس جائیں گے تو ان کے ساتھ کیا ہوگا اور موصول ہونے والی اطلاعات کی کمی کی وجہ سے پریشان ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے محفوظ مقام کی تلاش میں بنگلہ دیش کا رخ کیا تھا اور پناہ دینے پر بنگلہ دیشی حکومت کے شکر گزار ہیں۔اوکسفام، ورلڈ ویژن اور سیو دی چلڈرن نامی امدادی ادارے میانمار اور بنگلہ دیش میں کام کرنے والے گروہوں میں شامل تھے اور انہوں نے ہی اس بیان پر دستخط کیے تھے۔انہوں نے کہا کہ 2012میں رخائن میں تشدد کی فضا پروان چڑھنے کے بعد سے ایک لاکھ 20ہزار روہنگیا سے تعلق رکھنے والے افراد 6برس سے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ رخائن کے علاقے مانگ ڈا کے منتظم مینیت خائن نے کو بتایا کہ 15نومبر سے روہنگیا کی واپسی کا عمل شروع کیا جائے گا جس میں فی روز ایک سو 50افراد کی آمد کے حساب سے مجموعی طور پر 2ہزار 2سو افراد کو واپس لانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’ہم صرف 15 تاریخ کو ہی اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ ہماری بتائی گئی فہرست میں سے کتنے لوگ واپس آرہے ہیں یا نہیں۔ دوسری جانب بنگلہ دیشی حکام پریشان ہیں کہ روہنگیا مسلمان جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر حصوں میں کشتی کے ذریعے سفر کرنے کا خطرہ دوبارہ نہ مول لیں۔خیال رہے کہ گزشتہ برس میانمار کی شمالی ریاست رخائن میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد 7لاکھ 20ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔جس کے بعد اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی نے میانمار میں نسل کشی میں ملوث اعلیٰ فوجی حکام کے خلاف مقدمات قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم میانمار کی حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔