امت رپورٹ
تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان ملاقات کی ویڈیو لیک ہونے سے پی ٹی آئی کے اندر گروپ بندی اور اختلافات کی خبروں کی ایک بار پھر تصدیق ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ اس ملاقات میں مسلم لیگ ’’ق‘‘ کے رکن قومی اسمبلی طارق بشیر چیمہ، جہانگیر ترین سے گورنر پنجاب چوہدری سرور کی شکایت لگاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’’چوہدری سرور کو کنٹرول کریں۔ یہ وزیراعلیٰ پنجاب کو چلنے نہیں دیں گے‘‘۔ جبکہ اس موقع پر چوہدری پرویز الٰہی بھی طارق بشیر چیمہ کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔
ویڈیو لیک سے پیدا ہلچل کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کو ہنگامی پریس کانفرنس کرنی پڑی اور دوسری جانب وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی اس کا نوٹس لے لیا ہے۔
اس سارے معاملات سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے حلف اٹھائے جانے کے بعد پنجاب میں طاقت کے مراکز بڑھ گئے ہیں اور ہر پاور سینٹر اپنے طور پر صوبے کے معاملات کو چلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جس پر بیورو کریسی کنفیوژ ہے کہ وہ کس کے احکامات تسلیم کرے اور کس کی ہدایت نہ مانے۔ ان پاور سینٹرز میں سرفہرست وزیراعظم عمران خان ہیں، جنہوں نے صوبے کے اہم معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے اور وہ اپنے مشیر نعیم الحق کے ذریعے در پردہ پنجاب کو چلا رہے ہیں۔ یعنی انہیں جو بھی اہم حکم وزیراعلیٰ پنجاب کو پہنچانا ہوتا ہے وہ نعیم الحق کے ذریعے بھیجا جاتا ہے۔ تاہم وزیراعظم عمران خان اس وقت ہی صوبے کے معاملات میں انوالو ہوتے ہیں جب کوئی اہم ایشو درپیش ہو۔ جیسا کہ ماڈل ٹائون واقعہ سے جڑے پولیس افسروں کو نہ ہٹائے جانے پر طاہر القادری کی ناراضی کا معاملہ تھا تو وزیراعظم نے آئی جی پنجاب محمد طاہر کو ہٹانے کے لئے ذاتی اور خصوصی دلچسپی لی۔ بعد ازاں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ذریعے آئی جی پنجاب کی جگہ امجد جاوید سلیمی کو نیا آئی جی پنجاب بنایا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ صوبہ پنجاب کے امور کو پس پردہ چلانے والے پاور سینٹرز میں پی ٹی آئی کا چوہدری سرور گروپ بھی خاصا طاقتور ہے۔ بالخصوص محکمہ پولیس اور بیورو کریسی کے اندر حالیہ اکھاڑ پچھاڑ میں سرور گروپ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے نتیجے میں گورنر پنجاب اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ کیونکہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی بیورو کریسی میں اپنی پسند کے بندے لانا چاہتے تھے اور بعض اہم پوسٹوں پر انہوں نے یہ تقرریاں کرائی بھی ہیں۔ واضح رہے کہ پرویز الٰہی کی پارٹی مسلم لیگ ’’ق‘‘ حکمراں جماعت پی ٹی آئی کی اتحادی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ جب عثمان بزدار کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کیا گیا تھا تو اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی خوش تھے کہ ایک کمزور وزیراعلیٰ کی موجودگی میں انہیں صوبے کے امور پر کنٹرول رکھنا آسان ہوگا۔ اور جب ان کے قابل اعتماد ساتھی راجہ بشارت کو وزیر قانون پنجاب بنایا گیا تو صوبے کے امور پر اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کی گرفت مزید مضبوط ہوگئی۔ ذرائع کے مطابق راجہ بشارت کو یہ اہم صوبائی وزارت دلانے میں چوہدری پرویز الٰہی نے بھی کردار ادا کیا تھا۔ اور یہ کہ راجہ بشارت نے پرویز الٰہی کی رضا مندی سے ہی پی ٹی آئی جوائن کی تھی۔ دونوں کے دیرینہ تعلقات میں اب بھی ماضی جیسی گرمجوشی پائی جاتی ہے۔ اور راجہ بشارت اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب سے زیادہ اسپیکر پنجاب اسمبلی کا بازو بنے ہوئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اصل مسئلہ اس وقت ہی پیدا ہوا تھا جب پنجاب حکومت کے مختلف امور اپنے ہاتھ میں رکھنے کے خواہشمند اسپیکر صوبائی اسمبلی کو گورنر ہائوس کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت یہ دونوں طاقت کے مراکز آمنے سامنے ہیں۔ ذرائع کے مطابق آئی جی پنجاب محمد طاہر کی جگہ سنبھالنے والے پولیس کے نئے صوبائی سربراہ امجد جاوید سلیمی کی تقرری میں گورنر چوہدری سرور نے کلیدی کردار ادا کیا۔ دونوں کے پرانے تعلقات ہیں۔ اسی طرح چیف سیکریٹری پنجاب کو چوہدری پرویز الٰہی کا بندہ کہا جاتا ہے۔ قاف لیگ کے اندرونی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ پنجاب کو درپردہ چوہدری سرور اور علیم خان مل کر چلا رہے ہیں۔ جبکہ چوہدری سرور گروپ کے حامی یہی بات اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے بارے میں کہتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین سے گورنر پنجاب کی شکایت سے متعلق ویڈیو لیک ہونے کا تعلق انہی دو گروپوں میں رسہ کشی کا شاخسانہ ہے۔ چونکہ صوبائی معاملات میں گورنر ہائوس کی مداخلت اسپیکر پنجاب اسمبلی کی توقعات سے زیادہ بڑھ چکی ہے اور اب یہ قصہ پنجاب کے ان انتخابی حلقوں تک پہنچ چکا ہے جہاں سے مسلم لیگ ’’ق‘‘ کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ لہٰذا معاملے کو ہائی لائٹ کرنے اور اپنی اتحادی حکمراں پارٹی تحریک انصاف کو پیغام دینے کے لئے جان بوجھ کر یہ ویڈیو لیک کی گئی۔
جس ملاقات کی ویڈیو میڈیا میں وائرل ہوئی۔ یہ میٹنگ چوہدری پرویز الٰہی کی رہائش گاہ میں ان کے خصوصی ڈرائنگ روم کے اندر ہوئی تھی۔ ذرائع کے مطابق اسپیکر پنجاب اسمبلی اپنی زیادہ تر اہم ملاقاتیں، جنہیں میڈیا سے دور رکھنا ہوتا ہے، عام طور پر اسی کمرے میں کرتے ہیں۔ ایسے مواقع پر کسی کو ان کے کمرے تک رسائی کی اجازت نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی باہر کے آدمی نے چوری چھپے اپنے موبائل فون سے ملاقات کی ویڈیو بنا لی ہو۔ ملاقات کے وقت کمرے میں صرف چار رہنما چوہدری پرویز الٰہی، جہانگیر ترین، رکن قومی اسمبلی طارق بشیر چیمہ اور صوبائی وزیر معدنیات حافظ عمار یاسر موجود تھے۔
بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ویڈیو لیک کرنے میں جہانگیر ترین کی رضامندی بھی شامل ہو سکتی ہے جو، ان دنوں بہت سے معاملات پر وزیراعظم عمران خان سے خوش نہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ جب عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کیا گیا تھا تو پی ٹی آئی پنجاب چیپٹر کے بیشتر رہنمائوں کو اس بات کا شکوہ تو تھا ہی کہ پارٹی چیئرمین نے ایک ایسے فرد کو صوبے کا سب سے اہم منصب دے دیا جس نے کچھ عرصہ پہلے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔ جبکہ برسوں سے پارٹی کے لئے قربانی دینے والے نظریاتی اور قابل رہنمائوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب کو پی ٹی آئی میں موجود ان گروپوں کی مخالفت کا سامنا بھی تھا، جو عثمان بزدار کو جہانگیر ترین گروپ کا بندہ قرار دیتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ عثمان بزدار اور جہانگیر ترین کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں۔ جہانگیر ترین نے اس امید پر وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر عثمان بزدار جیسے کمزور امیدوار کی حمایت کی تھی کہ سپریم کورٹ میں ان کی نااہلی سے متعلق نظرثانی کی اپیل کا فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔ جس کے بعد وہ ضمنی الیکشن لڑ کر پنجاب کے وزیراعلیٰ بن جائیں گے۔ لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کے خلاف آیا اور سارا پلان دھرا رہ گیا۔ تاہم ذرائع کے بقول اپنے دیرینہ تعلقات کے سبب پنجاب حکومت کے مختلف امور میں جہانگیر ترین گروپ کی بھی تھوڑی بہت مداخلت موجود ہے۔ جہانگیر ترین نااہل ہو کر عملی سیاست سے بظاہر دور ہو چکے ہیں لیکن ان کا گروپ اب بھی پی ٹی آئی کے اندر وجود رکھتا ہے۔ اسی طرح شاہ محمود قریشی اور محمود الرشید کے گروپ بھی تاحال متحرک ہیں۔
ویڈیو لیک ہونے کے بعد اپنی ہنگامی پریس کانفرنس میں چوہدری پرویز الٰہی نے یہ بھی کہا کہ جب مختلف ارکان کے حلقوں میں ہونے والی مداخلت ہو اور اس سلسلے میں پیدا ہونے والے جائز گلے شکوے دور نہ کئے جائیں تو پھر غصہ سیکرٹ بیلٹ پر نکلتا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پنجاب میں سینیٹ کی دو سیٹوں پر الیکشن ہونے جا رہے ہیں تو ایسے میں اسپیکر صوبائی اسمبلی کی یہ بات خاصی معنی خیز ہے۔ واضح رہے کہ سینیٹ کے انتخاب میں خفیہ رائے شماری ہوتی ہے۔ عدالت کی جانب سے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے سینیٹرز ہارون اختر اور سعدیہ عباسی کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد ایوان بالا کی یہ دو سیٹیں خالی ہوئی تھیں۔ ان دونوں نشستوں پر 15 نومبر کو الیکشن ہونے جا رہا ہے۔ اس الیکشن میں اگرچہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے امیدواروں کی حمایت کی ہے۔ تاہم حکومتی اتحاد کو عددی برتری حاصل ہے۔ سیاسی مبصرین کے بقول پرویز الٰہی نے جو عندیہ دیا ہے اس کا مقصد فی الحال پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو جھٹکا دینا مقصود ہے۔ لہٰذا اس کا سینیٹ کے الیکشن پر اثر انداز ہونے کا امکان کم ہے۔ تاہم رسہ کشی کا سلسلہ جاری رہا تو مستقبل میں پنجاب کی سیاست میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭