پاکستانی مہنگائی کے باعث – مغربی ممالک کے شہری بچت کیلئے لنڈا بازار کا رخ کرتے ہیں- رپورٹ

0

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان میں مہنگائی اور مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے لوگ لنڈا یعنی استعمال شدہ اشیا کے بازاروں کا رخ کرتے ہیں لیکن دنیا کے امیر ترین ملکوں میں بھی لوگ ایسے بازاروں کا رخ کرتے ہیں، تاہم اس کی وجوہات قدرے مختلف ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستانی مہنگائی جبکہ مغربی ممالک کے شہری بچت کیلئے لنڈا بازار کا رخ کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فن لینڈ کے شہر ہلسنکی کے مضافات میں کیٹی روزی اپنی بیٹی اور کمسن بیٹے کے ساتھ کتابوں کے استعمال شدہ شیلف کی تلاش میں ہیں۔جس جگہ وہ شیلف دیکھنے آئی ہیں وہاں سے سڑک پار سویڈین کی فرنیچر کی ایک بڑی عالمی کمپنی آئیکیا کا شو روم ہے لیکن کیٹی کی دلچسپی اس سٹور کی بجائے میونسپل انتظامیہ کے زیر انتظام چلنے والے سینٹر میں ہے۔کیٹی کے بقول’ میں آئیکیا نہیں جانا چاہتی کیونکہ مجھے یہاں اس سے زیادہ مزے کی چیز مل جائے گی جو زیادہ اصل بھی ہو گی۔‘انہوں نے مزید کہا کہ’ میں نہیں چاہتی کے میرے پاس بھی وہی فرنیچر ہو جو ہر کسی کے پاس ہے اور یہاں سے جو میں خریدوں گی وہ قیمت میں کم اور زمین کے ماحول کے لیے اچھا ہو گا۔فن لینڈ میں غیر منافع بخش تنظیم کا استعمال شدہ اشیا کا سٹور اپنی طرز کا انوکھا سٹور ہے۔ عام طور پر فن لینڈ میں آپ کو خریداری کے مشہور مقامات پر استعمال شدہ اشیا کے سٹورز نہیں ملیں گے۔یہ سینٹرز برقی سامان کی مرمت کرتے ہیں اور اپنے برانڈ کے نام کے ساتھ انہیں ری سائیکل یا دوبارہ قابل استعمال بناتے ہیں اور یہاں تک کہ ان کی ایپ بھی ہوتی ہے جس سے وہ آپ کی ماضی میں خریدی گئی اشیا کی بنیاد پر آپ کو اشیا کے دستیاب ہونے کے بارے میں آگاہ کرتی ہے۔یہاں دو سہیلیاں چھٹی کے دن مختلف اشیا دیکھ رہی ہیں۔ ہانا میری جانسن نے بتایا کہ ’وہ اپنی نئی ملازمت کے لیے نئے ملبوسات دیکھ رہی ہیں۔ میں اپنے وہ کپڑے جو استعمال میں نہیں ہیں، وہ دے دوں گی جیسا کہ آپ کچھ لائیں اور کچھ خرید کر لے جائیں۔پنجا لوریا نے کہا، ’مجھے یہ جگہیں بہت پسند ہیں۔ میں لگزمبرگ میں رہتی تھی جہاں استعمال شدہ اشیا کی دکانیں تھیں لیکن وہ اس طرح کی نہیں ہیں۔ وہاں ملبوسات اور کتابیں ہوتی ہیں لیکن فرنیچر نہیں اور آج میں یہاں نئی میز خرید رہی ہوں۔یہ سٹور عام سٹوروں سے مختلف ہے۔ سٹور کی مینجر پیپی میٹلایا نے مجھے دکان کے اس حصے کا دورہ کرایا جہاں چیزوں کو ری سائیکل کرکے نئی شکل دی جاتی ہے اور اسے پلان بی کہا جاتا ہے۔یہاں پرانے پردوں سے تیار کردہ ملبوسات رکھے جاتے ہیں کیونکہ ’پردے کبھی آؤٹ آف فیشن نہیں ہوتے یعنی ان کا رواج ختم نہیں ہوتا۔یہاں پر بینچ بھی موجود تھا جسے سنو بورڈ سے تیار کیا گیا اور ٹیبل بھی ہے جس پر 40کلومیٹر فی گھنٹہ کا ٹریفک سائن نصب ہے۔پیپی نے بتایا کہ یہ چیزیں عام طور پر استعمال شدہ اشیا کی قیمت سے زیادہ میں فروخت ہوتی ہیں۔’ہم چاہتے ہیں کہ پرانی اشیا کو پذیرائی ملے۔ کیسی کرجیلینن ماحولیات کی ماہر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں متروک فیشن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔کیسی کے مطابق ’یہ مشکل کام ہوتا ہے کہ ایسے ملبوسات تلاش کیا جائے جن کی دھلائی صرف چند بار ہی ہوئی اور ہمیں بہت سارے ملبوسات کو پھینکنا پڑتا ہے کیونکہ ان کی حالت کافی خراب ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’جو کوئی بھی سٹور سے خریداری کرتا ہے تو رسید کے پیچھے تعریفی کلمات لکھے جاتے ہیں جس کا مقصد یہ بتانا ہوتا ہے کہ آپ نے نئے کی بجائے پرانے ملبوسات خرید کر کس طرح سے قدرتی وسائل کو بچایا ہے۔فرض کریں اگر میں نے کرسمس پر سجاوٹ کے لیے دو پیارے سے گلاس خریدے ہیں تو مجھے دی گئی رسید میں شکریہ ادا کیا جائے گا کہ آپ نے اس کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکل، ریت، تیل اور دیگر اشیا کی مد میں 84کلوگرام قدرتی وسائل کو بچایا ہے۔سٹور کے مطابق گذشتہ سال اشیا کی فروخت کی مد میں انہوں نے اندازاً پانچ کروڑ کلوگرام کے قدرتی وسائل کو بچایا۔انہوں نے شکایت کی کہ برطانیہ میں دوبارہ قابل استعمال کی اشیا پر پوسٹ کوڈ لاٹری ہے، جس میں بعض کونسلز لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ وہ ری سائیکلنگ کے مقام سے اشیا لیں لیکن دیگر صحت، حفاظت اور ذمہ داری کے بوجھ کی وجہ سے ایسا نہیں کرتیں۔ہمیں اسے ایجنڈے پر زیادہ شدت سے کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت زیادہ اچھا مواد ضائع ہونے جا رہا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More