عمران خان
کراچی کے علاقے صدر میں واقع ایمپریس مارکیٹ کو قدیم شکل میں بحال کرنا برطانوی حکام کی خواہش ہے۔ صدر کی قدیم ایمپریس مارکیٹ کو تاج برطانیہ کے دور کی اصل شکل میں واپس لانے کی خواہش کا اظہار برطانوی ہائی کمشنر تھامس ڈریو نے مارچ 2016ء میں سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے ساتھ ہونے والی خصوصی ملاقات میں کیا تھا۔
بعد ازاں ورلڈ بینک کی جانب سے 8 کروڑ ڈالر کا منصوبہ بھی برطانوی حکام کی دلچسپی کے باعث منظور کیا گیا جس میں صدر کی ایمپریس مارکیٹ سے لے کر پاکستان چوک اور پریڈی روڈ، دائو پوتا روڈ، راجہ غضنفر علی خان روڈ، میر کرم علی علی تالپور روڈ، زیب النساء اسٹریٹ اور لکی اسٹار کے اطراف میں موجود برطانوی دور کی قدیم عمارتوں کی تزئین و آرائش، مرمت اور از سر نوتعمیر شامل ہے۔ اس منصوبے کیلئے ورلڈ بینک کے جنوبی ایشیاء کیلئے ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کی نائب صدر انیتی ڈکسن نے سابق گورنر اور وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ سے علیحدہ علیحدہ خصوصی ملاقاتیں کیں جن میں ورلڈ بینک کی جانب سے منصوبے کیلئے فنڈز فراہم کرنے کی دلچسپی کا اظہار کیا گیا۔ اس منصوبے کو ’’کراچی نیبرہڈ امپروومنٹ پروجیکٹ‘‘ کے این آئی پی کا نام دیا گیا۔
برطانوی حکام کی جانب سے ایمپریس مارکیٹ سمیت پاکستان چوک تک قائم کئی دیگر ایسی عمارتیں جو برطانوی طرز تعمیر کی حامل ہیں، انہیں واپس اصل حالت میں لانے کیلئے جس کا خواہش کا اظہار کیا گیا، اس کے پس منظر میں کراچی شہر کے وسط میں تاج برطانیہ کی شان شوکت کی نشانیوں کی بحالی کا عنصر شامل ہے۔ اس خواہش کا برملا اظہار کرتے ہوئے برطانوی ہائی کمشنر نے سابق گورنر سندھ سے کہا تھا کہ اس کے ذریعے دونوں ممالک کے عوام میں موجود قدیم ثقافتی، معاشی اور تہذیبی روابط کو مزید فروغ حاصل ہوگا۔
کراچی بلدیہ اعظمیٰ کے ذرائع کے مطابق اس منصوبے کو حیرت انگیز طور پر انتہائی سرعت میں مکمل کرنے کیلئے نہ صرف ورلڈ بینک کی جانب سے پھرتی دکھائی گئی بلکہ سندھ حکومت کی جانب سے بھی کروڑوں ڈالر کے اس منصوبے کیلئے 20 فیصد رقم کا حصہ اپنے طور پر شامل کیا گیا۔ فنڈز منظور ہونے کے بعد ورلڈ بینک کی جانب سے یہاں پر پروجیکٹ کیلئے سرو ے کروایا گیا جس میں یہاں پر دکانیں چلانے والے اور کاروبار کرنے والوں کی تفصیلات معلوم کی گئیں۔ یہاں تک کے ان کے کاروبار کی نوعیت، دکانوں اور پتھاروں کی قانونی حیثیت کے ساتھ ہی لسانی بنیادوں پر بھی ان افراد کی تعداد ریکارڈ کا حصہ بنائی گئی۔ دستاویزات کے مطابق مارچ 2016ء میں برطانوی ہائی کمشنر کی جانب سے خواہش کے اظہار کے بعد نومبر کے مہینے تک ورلڈ بینک کی جانب سے اس منصوبے کیلئے کاغذی کارروائی بھی مکمل کرلی گئی تھی۔
بلدیہ عظمی کراچی کے ذرائع کے مطابق ایمپریس مارکیٹ کے اندر مجموعی طور پر 146 دکانیں کرائے پر تھیں، جن سے کے ایم سی کو باقاعدہ کرایہ ملتا تھا۔ تاہم مارکیٹ کے باہر اور اس کے اطراف قائم 738 سے زائد دکانوں سے کے ایم سی کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ جب منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے آپریشن شروع کیا گیا تو کے ایم سی نے سب سے پہلے انہی دکانوں اور ہوٹلوں کو مسمار کرنا شروع کیا۔ ذرائع کے بقول آپریشن میں جو دکانیں مسمار کی گئی ہیں وہاں ہونے والے کاروبار سے کم از کم ایک لاکھ شہریوں کا روزگار وابستہ تھا، جسے یک دم ختم کردیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ورلڈ بینک اور برطانوی حکام کی جانب سے منصوبے میں اس پہلو کو شامل کیا گیا تھا کہ یہاں پر کاروبار کرنے والوں کیلئے متبادل انتظام کرکے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کیا جائے گا۔ تاہم صوبائی حکومت کے وزیر بلدیات سعید غنی اور چند دیگر عہدیداروں نے میئر کراچی وسیم اختر سے یقین دہانی حاصل کی کہ آیا کہ وہ بھاری نفری کے ساتھ کامیاب آپریشن کرسکتے ہیں تو انہیں فنڈز اور وسائل فراہم کئے جاسکتے ہیں۔ اس طرح متاثرین کا ردعمل صوبائی حکومت کے بجائے شہری حکومت کو برداشت کرنا پڑتا اور ساتھ ہی متبادل انتظام کرنے کیلئے مختص ہونے والا بھاری فنڈ بھی خرچ ہونے سے بچایا جاسکتا تھا۔ بعد ازاں اسی منصوبے کے تحت معاملے کو آگے بڑھایا گیا۔ اس کیلئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک صائب فیصلے کو بہانہ بنایا گیا، جس میں ایسی غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا جو ٹریفک کے نظام میں خلل پیدا کرتی ہیں۔ تاہم موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اینٹی انکروچمنٹ فورس، کراچی پولیس سمیت دیگر اداروں کو شامل کرکے بھاری نفری کے ساتھ بھرپور آپریشن کرکے ایمپریس مارکیٹ کے اطراف ہر قسم کے کاروبار کا صفایا کردیا گیا۔
دستاویزات کے مطابق یہ منصوبہ اس وقت (Karachi Neighborhood Improve ment Project)کے نام سے چلایا جا رہا ہے اور اس پروجیکٹ کے عہدیداروں اور ورلڈ بینک کی انتظامیہ نے اسے دستاویزات میں صدر کے علاقے کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے اور یہاں کے رہائشیوں کو طرز زندگی بہتر بنانے کو جواز بنایا گیا ہے، اس پروجیکٹ کے انچارج محمد وسیم ہیں۔ حیرت انگیز طور پر انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ ورلڈ بینک کے ماہرین اور برطانوی افراد کو ان مقامات کے دورے کرائے، جنہیں اس پروجیکٹ میں شامل کیا گیا ہے اور اس منصوبے کے غیر متنازع اور شفاف ظاہر کرنے کیلئے شہر کے معروف فائیو اسٹار ہوٹل میں تقریب منعقد کی گئی جس کی رپورٹ ورلڈ بینک اور سندھ حکومت کو ارسال کی گئی کہ منصوبے کی تکمیل کیلئے تمام فریقین اور نمائندوں کو مدعو کرکے ان سے تفصیلی بات چیت کی گئی ہے اور تمام ’’اسٹیک ہولڈر‘‘ منصوبے پر متفق ہیں۔ تاہم جو اصل فریقین یعنی اسٹیک ہولڈر تھے، انہیں کانوں کان خبر ہی نہ لگنے دی گئی۔
ایمپریس مارکیٹ اور اطراف میں 50 برس سے کاروبار کرنے والے کئی افراد سے بات چیت کی گئی جس میں ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اور کے ایم سی کی جانب سے اس منصوبے کیلئے نہ تو انہیں پیشگی اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی ان کے کسی نمائندے کو کسی تقریب میں بلایا گیا۔ یہ افتاد ان پر اچانک آئی ہے، جس نے ایک لاکھ افراد سے زائد کو بے روزگار بنا دیا ہے اور اس کی تمام تر ذمے داری حکومت پر ہے۔ اگر ان بے روزگاروں میں کوئی خود کشی کرلیتا ہے یا اپنے نقصان پر دلبرداشتہ ہوکر جان گنوا بیٹھتا ہے تو اس کی تمام تر ذمے دار حکومت ہوگی۔ منصوبے کے خلاف کوئی نہیں، لیکن کاروبار کرنے والوں کیلئے متبادل کا انتظام کرنا اداروں کے ہی ذمے داری تھی۔ یہاں پر کئی دہائیوں سے کاروبار کرنے والوں نے جو جگہیں استعمال کیں ان کے پیسے ہر ماہ مختلف ادارے وصول کرتے رہے ہیں، زبردستی کوئی بھی نہیں بیٹھا ہوا تھا۔
پیر کے روز ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں دکانیں اور کاروبار مسمار کرنے کے بعد کے ایم سی کی ٹیموں نے بھاری مشینری کے ساتھ ملبہ بھی ہٹا دیا، جس کے بعد اسنارکل کے ذریعے ایمپریس مارکیٹ کی دھلائی شروع کردی گئی، تاکہ عمارت کو صاف ستھرا کیا جاسکے۔ یہاں پر موجود لوگوں کا کہنا تھا کہ کے ایم سی اور سندھ حکومت کی پھرتیاں حیرت انگیز ہیں ورنہ سرکاری کاموں میں ادارے اور ٹیمیں گھنٹوں کا کام ہفتوں اور ہفتوں کا کام مہینوں میں انجام دیتے ہیں۔ ذرائع کے بقول اس کام کو جلد از جلد نمٹانے کے بعد پروجیکٹ کے عہدیداروں، میئر کراچی اور صوبائی حکومت کے ارباب اختیار، برطانوی حکام اور ورلڈ بینک کے نمائندوں کو دورہ کرائیں گے اور اپنی کارکردگی ظاہر کرکے مزید فنڈز وصول کریں گے۔