ملعونہ کے وکیل کو شریعت مخالف کانفرنس میں شرکت کی خصوصی دعوت

0

امت رپورٹ
آسیہ ملعونہ کے حق میں 25 نومبر کو سنٹرل لندن میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ہو رہی ہے۔ جس کا عنوان ’’شریعت، نسلی امتیاز اور سیکولر ازم‘‘ رکھا گیا ہے۔ کانفرنس میں 24 ممالک کے 38 اسلام مخالف اور ملحد اسپیکر شرکت کر رہے ہیں۔ اس اجتماع میں آسیہ ملعونہ کے وکیل سیف الملوک کو خاص طور پر مدعو کیا گیا ہے جبکہ دیگر شرکاء میں سنٹر فار سیکولر اسپیس کی بھارتی ہندو ڈائریکٹر گیتا سہگل، سائوتھ ہال بلیک سسٹرز کی بھارتی ہندو ڈائریکٹر پرگنا پٹیل، بدنام بنگلہ دیشی رائٹر رفیدہ بونیا احمد، مراکو کی ہم جنس پرست ابتسام لشکر بیٹی، یوکرین میں حقوق نسواں کی نام نہاد رہنما اینا شیو چنکو، الجزائر کی سوشلسٹ کارکن مریم ہیلی لوکاس، تیونس کی متنازعہ فلم ساز نادیہ الفانی، پولینڈ کی سیکولر کارکن نینا شنکری اور ویمن ان بلیک بلگریڈ کی کو فائونڈر اسٹا سا زا جووک سمیت دیگر شامل ہیں۔ تقریب میں خطاب کے لئے مدعو کئے جانے والے یہ تمام شرکاء اسلام کی مخالفت اور بے راہ روی کو پروان چڑھانے میں عالمی شہرت رکھتے ہیں۔
کانفرنس کے منتظمین کے بقول صف اول کے سیکولر رہنما اور حقوق نسواں کے علمبردار شریعت، مذہبی ثالثی، فیملی قوانین، سیاست، نسلی امتیاز، پردہ، خواتین کی خود مختاری اور اقلیتی حقوق پر ڈسکس کریں گے۔ کانفرنس کے موقع پر ایران میں پردے کے خلاف خواتین کی تحریک چلانے والوں سے اظہار یکجہتی کیلئے رقص کیا جائے گا جبکہ حقوق نسواں کی تحریک چلانے والوں کو ایوارڈ دیئے جائیں گے۔ کانفرنس کا مقصد اگرچہ سیکولر اور مساوات کے حامیوں کو ایک جگہ جمع کر کے ان کی آواز کو دنیا بھر میں پھیلانا بیان کیا گیا ہے تاہم لندن میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ کانفرنس کے اصل مقاصد اسلامی قوانین کو ہدف تنقید بنانا اور آسیہ ملعونہ کے واقعے کو ہائی لائٹ کر کے پاکستان میں اقلیت پر مظالم کے پروپیگنڈہ کو ہوا دینا ہے۔ اس مقصد کے لئے خاص طور پر ملعونہ کے وکیل سیف الملوک کو کانفرنس میں مدعو کیا گیا ہے جس نے خوشی خوشی اس کانفرنس کی دعوت قبول کر لی ہے۔
کانفرنس کی منتظمہ مریم نمازی ہے۔ ایرانی نژاد برطانوی شہری مریم نمازی کا شمار شریعت کے بڑے مخالفین میں کیا جاتا ہے۔ اس کے سبب اسے ایران سے فرار ہونا پڑا تھا۔ شریعت کے خلاف متنازعہ مہم چلانے والی مریم نمازی کے تازہ لیکچروں کو خود روشن خیال عناصر بھی انتہائی اشتعال انگیز قرار دے چکے ہیں۔
کانفرنس کے دیگر شرکاء کے بیک گرائونڈ کے بارے میں ’’امت‘‘ نے ریسرچ کی تو معلوم ہوا کہ یہ تمام متنازعہ شخصیات اسلام مخالف پروپیگنڈے کے باعث مغرب کی آنکھ کا تارا ہیں۔ اسلام دشمنی پر ہی ان کو مختلف ممالک کی شہریت حاصل ہوئی اور اب یہ ممالک انہیں اپنے اسلام مخالف ایجنڈے کی تکمیل کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اگرچہ مریم نمازی پہلے بھی اس نوعیت کی کانفرنسیں کراتی رہی ہے۔ تاہم 25 نومبر کو ہونے والی کانفرنس کو خاص طور پر ملعونہ آسیہ کا معاملہ ہائی لائٹ کرنے کے لئے منعقد کیا جا رہا ہے۔ کانفرنس کے شرکاء میں شامل آسیہ ملعونہ کے وکیل سیف الملوک کو کینیڈا نے عارضی شہریت دے دی ہے، جبکہ مستقل شہریت کے لئے قانونی کارروائی مکمل کی جا رہی ہے۔ سیف الملوک سلمان تاثیر قتل کیس میں بھی غازی ممتاز قادریؒ کے مخالف وکیل تھے۔
کانفرنس میں مدعو بنگلہ دیشی نژاد امریکی رائٹر رفیدہ بونیا احمد ڈھاکہ میں پیدا ہوئی۔ ایک ملحد بلاگر ایویجیت رائے سے شادی کی۔ دونوں میاں بیوی نے اسلامی شریعت کے خلاف اپنے بلاگ پر انتہائی نفرت انگیز مضامین لکھے۔ جس پر بنگلہ دیش کے مسلمانوں میں اشتعال پھیل گیا۔ نتیجتاً دونوں امریکہ فرار ہو گئے۔ اور بعد ازاں امریکی شہریت حاصل کر لی۔ فروری 2015ء میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کرنے کے لئے رفیدہ بونیا اور ایویجیت رائے ڈھاکہ آئے تھے کہ راسخ العقیدہ مسلمانوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ حملے میں ایویجیت رائے مارا گیا جبکہ بونیا احمد شدید زخمی ہوئی۔ صحت یاب ہونے کے بعد سے بونیا احمد نے بنگلہ دیش میں اسلام مخالف نام نہاد سیکولر دانشوروں پر حملوں کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔ بونیا احمد کا شوہر ایویجیت رائے اعلانیہ ملحد تھا۔ تاہم اس نے سوائے اسلام کے کبھی کسی اور مذہب کے خلاف نہیں لکھا۔ اپنے پروپیگنڈے کو پروان چڑھانے کے لئے ایویجیت رائے نے بنگلہ زبان میں مکتو مونا (آزاد ذہن) نامی بلاگ بنا رکھی تھی۔ اس کے مارے جانے پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھی اپنے غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔ اور اس کی موت کو بنگلہ دیش میں مذہبی آزادی رائے پر حملہ قرار دیا۔
کانفرنس میں مراکو میں پیدا ہونے والی ابتسام لشکر بیٹی بھی شریک ہو رہی ہے۔ خود کو حقوق نسواں کی علمبردار قرار دینے والی ابتسام لشکر کا شمار ایل جی بی ٹی کے بڑے حامیوں میں ہوتا ہے۔ 1990ء سے ایل جی بی ٹی کی اصطلاح ہم جنس پرستوں اور خواجہ سرائوں کے سپورٹرز کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ ابتسام لشکر مراکو کی ان خواتین میں سے ایک ہے جس نے سب سے پہلے اعلانیہ اپنے ملحد ہونے کا اقرار کیا۔ ابتسام لشکر کا نام اس وقت مراکو کے اخبارات میں شہ سرخیاں بنا، جب اس نے ماہ رمضان میں روزہ خوری پر سزا سے متعلق ملکی آئین کی شق 222 کے خلاف احتجاجی مہم چلائی۔ اسلام مخالف، فحاشی اور اخلاقی بے راہ روی کی سپورٹر ابتسام لشکر ’’سرعام بوسہ‘‘ کی آن لائن مہم بھی چلا چکی ہے۔ غیر شادی شدہ ہے اور اس وقت رباط میں اپنے دوست کے ساتھ قیام پذیر ہے۔
کانفرنس کی شرکاء میں سرفہرست اینا شیو چنکو کا تعلق یوکرین سے ہے۔ انٹرنیشنل ویمن موومنٹ کی سرگرم رکن ہے۔ اینا کو 2010ء میں اس وقت شہرت ملی جب ایک مظاہرے کے دوران میڈیا کو متوجہ کرنے کے لئے اس نے خود کو عریاں کر لیا تھا۔ اس وقت اینا، میئر کے پریس آفس میں ملازم تھی۔ تاہم اس اخلاق سوز مظاہرے کے نتیجے میں اسے نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ بعد ازاں وہ یوکرین سے بھاگ کر فرانس چلی گئی۔ جہاں اسے شریعت مخالف سرگرمیوں کے بدلے مختصر عرصے میں شہریت مل گئی۔ اسی طرح الجزائر کی مریم ہیلی لوکاس نے بھی خواتین سے متعلق شرعی قوانین کے خلاف پروپیگنڈہ مہم شروع کر رکھی ہے۔ اور اس سلسلے میں اس کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں، کئی کتابیں بھی لکھ چکی ہے۔
تیونس سے تعلق رکھنے والی نادیہ الفانی فلم ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ہے۔ کئی ڈاکومنٹری فلمیں بنا چکی ہے۔ جس میں عموماً شرعی قوانین کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ اسی نوعیت کی ایک فلم میں متنازع سین فلمبند کرنے پر اسے تیونس سے فرار ہو کر دوبارہ فرانس جانا پڑا، جہاں وہ پیدا ہوئی تھی۔ نادیہ الفانی کے باپ کا تعلق تیونس سے تھا جبکہ اس کی ماں فرنچ تھی۔ پولینڈ کی نینا شنکری بھی کانفرنس کی اہم مہمان ہے۔ نینا نوعمری میں ہی ملحد ہو گئی تھی۔ آج کل مختلف مذاہب بالخصوص اسلام کی سخت ناقد ہے۔
کانفرنس کی روح رواں ممبئی میں پیدا ہونے والی گیتا سہگل بھارتی نژاد برطانوی شہری ہے۔ شاتم رسول سلمان رشدی کے بڑے سپورٹروں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ سلمان رشدی کے حق میں کئی مضامین لکھ چکی ہے۔ گیتا سہگل، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جینڈر یونٹ کی سربراہ بھی تھی۔ تاہم ایمنسٹی نے اسے کئی برس پہلے نکال دیا تھا۔ جبکہ سائوتھ بلیک سسٹرز نامی این جی اوز کی شریک بانی پرگنا پٹیل بھی بھارتی نژاد برطانوی شہری ہے۔ برطانیہ میں سیاہ فام اور ایشیائی خواتین کے حقوق کی سپورٹر کہلاتی ہے۔ تاہم اسلام پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔
لندن میں موجود ذرائع نے بتایا کہ اقلیتوں کے حقوق اور خواتین کی سپورٹ کے نام پر ہونے والی کانفرنس دراصل ایک محفل نشاط ہے۔ جہاں اسلام مخالف تقریروں، لٹریچر کی تقسیم کے علاوہ مخلوط رقص اور پینے پلانے کا خصوصی اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ عام لوگوں کو کانفرنس میں شرکت کے لئے ٹکٹ خریدنا ہو گا۔ ٹکٹ کی قیمت 80 پائونڈ (13 ہزار 851 پاکستانی روپے) 70 پائونڈ ( 12 ہزار 120 پاکستانی روپے) اور 60 پائونڈ ( 10 ہزار 388 پاکستانی روپے) رکھی گئی ہے۔ جس میں ریفریشمنٹ، لنچ اور کاک ٹیل شامل ہے۔ جبکہ اسلام مخالف کتب اور لٹریچر کی فروخت کے لئے بک اسٹال کا کرایہ 250 پائونڈ (43 ہزار 283 پاکستانی روپے) رکھا گیا ہے۔ کانفرنس کو امریکہ اور یورپ بھر کی اسلام مخالف این جی اوز ، ادارے اور ٹی وی چینل اسپانسر کر رہے ہیں۔ ان میں بریڈ اینڈ روزز ٹی وی، سنٹر فار انکوائری، سنٹر فار سیکولر اسپیس، کونسل آف ایکس مسلم آف برٹین، یورپ نیٹ ورک آف مائیگرینٹ ویمن، ایکوئل رائٹس نائو فریڈم فرام ریلیجن فائونڈیشن، نیشنل سیکولر سوسائٹی، سائوتھ ہال بلیک سسٹرز اور دیگر شامل ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More