سرفروش

0

عباس ثاقب
دھوری نسبتاً بڑا قصبہ ثابت ہوا۔ جانے اس کا یہ فضول سا نام کیسے پڑگیا تھا۔ وہاں سے مجھے ایک نسبتاً چھوٹی سڑک جہانگیر نامی کسی قصبے یا گاؤں کی طرف جاتی نظر آئی لیکن میں نے ٹرک ڈرائیور کی ہدایت کے مطابق بڑی سڑک پر سفر جاری رکھا اور گندم کے لہلہاتے کھیتوں کے درمیان جیپ بھگاتا ہوا کوئی بیس پچیس منٹ میں مالیر کوٹلہ کی حدود میں داخل ہوگیا۔ میں نے کسی سے پوچھنے کے بجائے خود تھوڑی سی خواری اٹھائی اور بالآخر اس مسافر خانے تک پہنچ گیا جہاں ظہیر اور میں نے شب بسری کی تھی۔
جیپ ایک مناسب جگہ کھڑی کرکے مسافر خانے کے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے میرے دل کی گہرائیوں سے دعا نکل رہی کہ مجھے یہیں ظہیر مل جائے۔ اتنے دن کی جدائی کے بعد اس سے ملنے کی امید کے ساتھ اشتیاق بھی زور پکڑگیا تھا۔ میں مسافرخانے کی سیڑھیاں چڑھ کر پہلی منزل پر دفتر استقبالیہ کے طور پر استعمال ہونے والے کمرے کے دروازے پر پہنچا توضعیف العمر منتظم سامنے ہی کسی کتاب کے مطالعے میں مگن دکھائی دیے۔ میں کوشش کے باوجود ان کا نام یاد نہ کرسکا، البتہ یہ ضرور ذہن نشیں تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔ انھوں نے میری موجودگی کا احساس ہونے پر نظر اٹھائی تو میں نے گرم جوشی سے سلام کیا۔
انھوں نے توجہ سے مجھے دیکھا تو ان کی آنکھوں میں مجھے شناسائی کے آثار دکھائی نہ دیے۔ ان کے اشارے پر میں نے قریب ہی بچھی سیٹھی پر بیٹھتے ہوئے مزاج پرسی کے رسمی الفاظ ادا کیے۔ انھوں نے گرم جوشی سے جواب دیا اور پھر سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا ’’کیا آپ کو رہائش کے لیے کمرا درکار ہے؟‘‘
میں نے انکار میں سر ہلایا ’’قبلہ آپ نے غالباً مجھے پہچانا نہیں۔ میں سہیل ہوں، میں اکرم کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔‘‘
میری بات سن کر وہ چونکا اور پھر یکایک ان کاذہن پوری طرح بیدار ہوگیا ’’اوہو، بھئی معاف کرنا۔ دراصل عمر کے ساتھ غائب دماغی بڑھتی جارہی ہے۔ آپ نے تو واقعی کچھ دن پہلے اکرم کے ساتھ ہمارے ہاں قیام کیا تھا۔ فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔‘‘
اس کی بات سن کر مجھے مایوسی ہوئی۔ اس کا یہی مطلب ہوسکتا تھا کہ ظہیر دوبارہ اس طرف نہیں آیا ہے، ورنہ یہ شخص ضرور ذکر کرتا۔ میں نے اپنی بے دلی پس پشت ڈالتے ہوئے کہا ’’قبلہ مجھے ایک اہم کام کے سلسلے میں اکرم سے جلد از جلد ملاقات کرنی ہے لیکن میرے پاس اس سے رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اس نے بتایا تھا کہ آپ کے ذریعے اس تک پیغام پہنچ سکتا ہے۔‘‘
اس نے بدستور برائے نام دل چسپی کے ساتھ کہا ’’ہاں، ہاں، کیوں نہیں۔ اگر آپ ان کیلئے کوئی پیغام چھوڑنا چاہتے ہیں تو اطمینان رکھیے، وہ جب بھی یہاں آئیں گے، ان تک پہنچ جائے گا۔‘‘
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان کو معاملے کی اہمیت کا کیسے احساس دلاؤں۔ اتنا طویل بے سود ہی لگ رہا تھا۔ اچانک میرے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا۔ یہ شخص یقیناً ظہیر کا رازدار ہے، تبھی تو اس نے مجھے اس سے رابطے کو کہا تھا۔ میں ظہیر کے فرضی نام کے ساتھ اس سے بات کررہا ہوں تو یہ ہم دونوں کے تعلق کی گہرائی کا کیسے ادراک کرسکتا ہے۔
یہ بات ذہن میں آتے ہی میں نے نسبتاً دھیمے اور رازدارانہ لہجے میں کہا
’’ میرے محترم، بات یہ ہے کہ میں جان بوجھ کر اکرم کا اصل نام آپ کے سامنے نہیں لینا چاہ رہا تھا۔ اب آپ رازداری برت رہے ہیں تو میں واضح کردوں کہ اس کے اور میرے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے، میں اس کے مقصدِحیات سے نہ صرف واقف اور متفق ہوں، بلکہ اس مقصد کے لیے ہم دونوں مل کر کئی مہمات سرکرچکے ہیں۔‘‘
میری بات سن کر وہ چونکا۔ اس نے مجھے غور سے دیکھا اور پھر گمبھیر لہجے میں کہا ’’اگر تم واقعی اس کے ساتھی ہو، تو اس کے اصل نام کے ساتھ کوئی ایسی بات بھی بتاؤجو ثابت کرسکے کہ تم اس کے رازدار ہو وہ تم پر مکمل اعتماد کرتا ہے۔‘‘
میں نے بدستور رازدارانہ لیکن پُر اعتماد لہجے میں کہا ’’چند ہی ہفتے پہلے، بٹھنڈا میں خفیہ پولیس کے ایک اڈے پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا تھا جس کے دوران ایک داروغہ اپنے کئی کارندوں سمیت مارا گیا تھا۔‘‘
میں نے ان کے چہرے کے تاثرات تیزی سے تبدیل ہوتے دیکھے۔ میں نے اپنی بات کی تاثیر بھانپتے ہوئے مزید کہا ’’وہ حملہ ظہیرشیخ نامی ایک کشمیری نوجوان نے اپنا ساتھی چھڑانے کے لیے کیا تھا اور وہ ساتھی کوئی اور نہیں، میں تھا۔ وہ میری خاطر موت کے منہ میںکود پڑا تھا۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہم دونوں میں کتنا قریبی رشتہ ہے۔‘‘
میری بات پوری ہوتے ہوتے وہ شخص اٹھ کھڑا ہوا اور پھر مجھے بھی کھڑاکرنے کے بعد والہانہ انداز میں مجھ سے لپٹ گیا ’’تو وہ تم تھے۔‘‘ اس نے مجھے دونوں بازوؤں سے پکڑ کرکہا ’’ظہیر سے تو میری ملاقات نہیں ہوئی، لیکن اس کے ایک ساتھی کے ذریعے مجھ تک اس کا کارنامہ پہنچا تھا۔ اسی سے مجھے پتا چلا تھا کہ تم نے بھی کئی بار ظہیر کو خطروں سے نکالنے کے لیے جان کی بازی لگائی ہے۔ تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔‘‘
ان کے رویے میں بالآخر موافق تبدیلی دیکھ کر میں نے اطمینان کا سانس لیا اور اپنے مطلب کی بات پر دوبارہ آتے ہوئے کہا ’’میرا نام جمال ہے۔ میرا ظہیرسے جلد از جلد ملنا بہت ضروری ہے اور میرے پاس اس سے رابطے کا واحد ذریعہ آپ ہیں۔‘‘
میرے میزبان نے خوش دلی سے مسکراتے ہوئے کہا ’’میرا نام تو ظہیر نے بتا ہی دیا ہوگا۔ مجھے عظمت اللہ خاں کہتے ہیں۔ دیکھو میاں، یہ تو کچھ پتا نہیں کہ ظہیر کب آئے گا۔ لیکن تمھارا پیغام جلدازجلد اس تک پہنچانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اس کا ایک ساتھی یاسر بھٹ لدھیانے میں خشک میوے کا بیوپار کرتا ہے، جو ظہیر سے مستقل رابطے میں رہتا ہے، چاہے وہ کشمیر میں ہو یا ہندوستان کے کسی شہر میں۔ میرا خیال ہے میں کل ہی اس کے پاس چلا جاتا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو یاسر کے ذریعے تمھارا پیغام جلدہی ظہیر تک پہنچ جائے گا۔ ‘‘
میں نے بے صبری سے پوچھا ’’عظمت صاحب لدھیانہ یہاں سے کتنے فاصلے پر ہے؟‘‘
انھوں نے کچھ سوچ کر کہا ’’میرا خیال ہے تیس بتیس میل ہوگا۔ لیکن بس میں جائیں تو ڈیڑھ گھنٹا لگ جاتا ہے۔‘‘
اتنا کم فاصلہ سن کر میں نے جوشیلے لہجے میں کہا ’’ عظمت صاحب، میرے پاس جیپ ہے، ہم ایک گھنٹے کے اندر لدھیانے پہنچ سکتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ابھی میرے ساتھ چلیں؟ ہم ان شااللہ شام سے پہلے واپس آجائیں گے۔ میں اکیلا بھی وہاں جاسکتا ہوں لیکن معاملہ نازک ہے۔ وہ اتنی آسانی سے مجھ پر بھروسا نہیں کرے گا۔‘‘
عظمت اللہ نے ذہن میں کچھ حساب کتاب جوڑا اور پھر کہا ’’اچھا تمھاری مرضی ہے تو چلو، چلتے ہیں۔ بس چند منٹ کی مہلت دے دو، میں اپنے بھتیجے کو معاملات سمجھاکر اپنی جگہ بٹھا دوں۔‘‘
لگ بھگ پندرہ منٹ بعد میری جیپ عظمت اللہ خان کو ساتھ لیے سردیوں کی خوش گوار دھوپ میں سرسبز کھیتوں کے درمیان ایک چوڑی سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ یہ مشکل مرحلہ بخوبی طے ہونے پر میرا دل خوشی سے جھوم رہاتھا اور امیدیں اور حوصلے آسمان چھو رہے تھے۔ لگ بھگ آدھے گھنٹے بعد ہم دلاور گڑھ نامی قصبے سے گزرے۔
اس دوران عظمت اللہ خان مسلسل مختلف علاقوں کی خصوصیات بتاتے رہے۔ ان کے مطابق پنجاب کے اس حصے میں بٹوارے سے پہلے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد آباد تھی اور اسی اعتبار سے بہت سے قصبوں اور شہروں کے نام بھی مسلمانوں کے نام پر تھے۔ دلاور گڑھ کے بعد اگلا بڑا قصبہ اکبرپورکہلاتا ہے، جبکہ آس پاس ہی احمدگڑھ اور داؤد سیہاں نامی قصبے بھی واقعے تھے جہاں اب مسلمانوں کی اکثریت تو نہیں ہے، لیکن ان جگہوں کے نام ابھی تک نہیں بدلے گئے اور خوف و ہراس کا ماحول کم ہونے پر دلّی جیسے مسلمانوں کی بھاری آبادی والے شہروں میں منتقل ہونے والے بہت سے مسلمان گھرانے واپس آنے لگے ہیں۔ ہم دونوں ایک گھنٹے سے پہلے لدھیانہ کی حدود میں داخل ہوگئے ۔ عظمت اللہ خان کی رہنمائی میں شہر کی ایک مصروف منڈی میں پہنچ کر میں نے جیپ ایک چھوٹی سی دکان کے سامنے روک دی ۔کسی دکان کے بورڈ سے پتا چلا کہ یہ گھمرمنڈی ہے۔عظمت اللہ خان کی نظر کے تعاقب میں، میںنے دیکھا کہ ایک چوڑے سے چبوترے پرڈھلواںصندوقچے کے پیچھے چالیس پینتالیس سال کا ایک گورا چٹا، بھاری بھرکم شخص ایک کھاتے میں دیکھ کر کسی حساب کتاب میں مصروف ہے۔
جیپ رکنے پر اس نے چونک کر دیکھا لیکن پھر عظمت اللہ خان پر نظر پڑتے ہی اس کے وجیہ چہرے پر مسکراہٹ کھل اٹھی اور وہ چبوترے سے اتر کر دکان سے باہر آگیا۔ ہمارے جیپ سے اترنے پر وہ والہانہ انداز میں عظمت اللہ سے لپٹ گیا ’’زہے نصیب عظمت بھائی، آپ نے بھی ہماری طرف آنے کی زحمت کی۔ قسم سے، دل خوش ہوگیا آپ کو دیکھ کر!‘‘ اس کے گرج دار لہجے میں محبت کی فراوانی تھی۔
عظمت اللہ خان نے اس کی توجہ میری طرف مبذول کراتے ہوئے کہا ’’بھائی اس شہزادے کو تم سے ملوانے کے لیے لایا ہوں۔ ذرا پہچانو تو سہی کہ یہ کون ہے؟‘‘
یاسر بھٹ نے غور سے مجھے دیکھا اور اچانک اس کی آنکھیں چمک اٹھیں ’’اوہ…اوہ… میں پہچان گیا، بالکل پہچان گیا۔ یہ شہزادہ نہیں، میرا دل، میرا جگر ہے… لیکن یہ جگہ ایسی باتیں کرنے کے لیے مناسب نہیں ہے، پہلے آپ لوگ اندر چلیں ۔‘‘
وہ ہمیں ساتھ لیے دکان میں داخل ہوا اور پھر اندر سے دروازہ بند کردیا۔ اس کے بعد وہ پہلو میں موجود ایک زینے کے ذریعے ہمیں پہلی منزل پر واقع ایک کمرے میں لے آیا جسے دیکھ کر پہلی نظر میں اندازہ ہوجاتا تھا کہ وہ جگہ کسی چھڑے کی قیام گاہ ہے۔
کمرے میں پہنچتے ہی یاسر نے گرم جوشی سے مجھے گلے لگالیا ’’چھوٹے بھائی، بتا نہیں سکتا تم سے مل کر کتنی خوشی ہوئی۔ ظہیر نے تمھارے بارے میں جو کچھ بتایا اس کے بعد تم سے ملنے کا بے حد اشتیاق، بلکہ حسرت تھی۔‘‘
میں نے اس کی گرم جوشی اور محبت کا حتی الامکان برابری کی بنیاد پر جواب دیا لیکن مجھے اپنے مقصد کو آگے بڑھانے کی بے تابی تھی، لہٰذا میں نے رسمی باتوں کا سلسلہ منقطع کرتے ہوئے سوال پوچھ لیا ’’یاسر بھائی، مجھے ظہیر شیخ سے جلد از جلد ملنا ہے۔ کیا آپ اس تک میرا یہ پیغام پہنچا سکتے ہیں؟‘‘
یاسر نے میری بات سن کر جلدی سے اثبات میں سرہلایا ’’ہاں، ہاں… ضرور۔ لیکن کل تک انتظار کرنا پڑے گا۔ دو دن پہلے مجھے اس کا تار ملا تھا کہ وہ کشتواڑ سے چندی گڑھ پہنچ چکا ہے۔ دو دن دن بعد اپنے خاص ٹھکانے منڈی گوبند گڑھ پہنچے گا، جہاں اسے دو دن رک کر انبالہ روانہ ہونا ہے۔‘‘
میں نے اپنا ہیجان دبانے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا ’’منڈی گوبند گڑھ کا یہاں سے کتنا فاصلہ ہے؟ ‘‘
یاسر نے کچھ سوچ کر بتایا ’’قصبہ کھنّہ یہاں سے پچیس میل کے فاصلے پر ہے۔ منڈی گوبندگڑھ وہاں سے پانچ چھ میل آگے ہے۔ ‘‘
میں نے کہا ’’یہاںسے جیپ کا ڈیڑھ گھنٹے کا فاصلہ ہوا! آپ کے کہنے کے مطابق ظہیر آج وہاں پہنچ گیا ہوگا؟‘‘
یاسر نے اثبات میں گردن ہلائی۔ اس پر میں نے عظمت اللہ خان کو مخاطب کیا ’’عظمت صاحب، آپ کو زحمت تو ہوگی، براہ کرم بس کے ذریعے اپنے شہر واپس چلے جائیے۔ میں ابھی اور اسی وقت ظہیر کی طرف روانہ ہوجانا چاہتا ہوں۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More