اسلام آباد( رپورٹ اخترصدیقی )قومی احتساب بیورو(نیب )قوانین کے حوالے سے نئی قانون سازی کی تیاریاں مکمل کرلیں۔جلد نیب قانون میں ترمیم کیلئے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل اور اپوزیشن جماعتوں سے کمیٹی میں شامل کرنے کے لیے نام بھجوانے کی درخواست بھی کی جائیگی تاکہ کمیٹی حکومتی مسودے کاجائزہ لے اور اس میں موجودسفارشات کابھی جائزہ لے ۔ پارلیمانی کمیٹی 20 ارکان پر مشتمل ہوگی، سینیٹ سے 7 اور قومی اسمبلی سے 13 ارکان کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔دوسری جانب نئی قانونی سازی سے قبل وفاقی حکومت نے بدعنوانی کے مقدمات میں اب تک کی قومی احتساب بیورو(نیب)کی کارکردگی کاجائزہ لینے کافیصلہ کیاہے اس دوران لوٹی گئی دولت واپس لینے کی شرح ،ملزمان کاریکارڈ،عدالتوں میں دائر مقدمات کی سماعت کاتمام تر ریکارڈ،نیب کی جانب سے جاری کردہ سیاسی اور دیگراہم شخصیات کے خلاف زیر التواء مقدمات اور ریفرنسزپر اب تک کی پیش رفت بارے تفصیلات کاجائزہ لیاجائیگا۔وفاقی حکومت نے اس بات کافیصلہ نیب قوانین میں بہتری لانے بارے نئی قانون سازی کرنے سے قبل ہوم ورک مکمل کرناہے۔نیب افسران کودی گئی مراعات ،ا ن کی تنخواہوں میں اضافے ،افسران کی کارکردگی ،قانونی اعتبارسے نیب کی فعالیت کابھی جائزہ لیاجائیگا۔پر اسیکیوٹرجنرل نیب کاآئینی وقانونی کردار کووسعت دینے کابھی فیصلہ کیاگیاہے کئی اہم معاملات میں چیئرمین نیب سمیت دیگراہم عہدیداران پراسیکیوٹررجنرل نیب سے بھی مشاورت کریں گے ۔روزنامہ امت کوذرائع نے بتایاہے کہ وفاقی حکومت نے نیب کی کارکردگی کاجائزہ لینے کافیصلہ کیاہے اس بارے چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاویداقبال سے تمام ترمعاملات پر رپورٹ مانگی جائیگی اس بارے ان سے بریفنگ بھی لی جاسکتی ہے اس کے لیے وفاقی وزارت قانون وانصاف سوالا ت تیار کررہی ہے ۔دسمبرکے آغازمیں نیب قوانین میں بہتری کے لیے قانون سازی کاعمل شروع کیے جانے کابھی امکان ہے حکومت کی کوشش ہے کہ نیب قوانین میں ترمیم کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل بھی جلدازجلدکرلی جائے اس کے لیے اپوزیشن سے درخواست بھی کی جارہی ہے ۔۔وفاقی حکومت نے پیپلزپارٹی کی جانب سے دی گئی بعض تجاویزکاجائزہ لے لیاہے اب معاملات کوحتمی شکل دی جارہی ہے ۔ذرائع کاکہناہے کہ پی پی کی جانب سے بھجوائی گئی جن تجاویزکاجائزہ لیاگیاہے ان میں چیئرمین نیب کو حاصل لامحدود اختیارات میں کمی اور چیئرمین کے اختیارات کمیشن کے پانچ ارکان کے حوالے کرنے ،چاروں صوبوں اور اسلام آباد سے کمیشن ارکان لینے، صوبائی نیب ڈائریکٹوریٹس کے اختیارات میں اصلاحات لانے اور الزامات کی تحقیقات کے حوالے سے بھی اصلاحات تجاویزشامل ہیں ۔وفاقی معاملات میں صرف کرپشن کی تحقیقات کرنے اور صوبائی معاملات اینٹی کرپشن کو دینے کی تجویز دی ہے۔ کسی صوبے یا وفاق میں ایک خاص حد سے زیادہ مالی کرپشن کی تحقیقات ہی نیب کرے جبکہ ان معاملات میں بھی تحقیقات نیب کرے جن میں وفاق کے ملازمین، یا ارکان پارلیمنٹ ملوث ہوں۔ ریمانڈ کی90 روزہ مدت ختم کر کے وہی رکھی جائے جو عام قانون میں ہے۔ الزامات کی تحقیقات مکمل ہونے تک نیب حکام کو میڈیا میں بات کرنے کی اجازت نہ دینے، بلا امتیاز اور تمام اداروں، اور پارلیمینٹیرینز کا احتساب ایک ہی قانون کے ذریعے کرنے کی تجاویز دی گئیں ہیں۔ قوانین میں موجود سقم کے حوالے سے اور بھی کچھ تجاویز دی گئی ہیں۔جن شقوں میں سقم کی بات کی گئی ہے ان میں پلی بارگین ،ملزمان کاریمانڈحاصل کرنے ،ملزمان کی گرفتاری،ریفرنسزکی تیاری سمیت دیگر مراحل شا مل ہیں ۔ذرائع کایہ بھی کہناہے کہ نیب کی سیکشن ،9،11،14سمیت دیگر سیکشنزکابھی جائزہ لیاجائیگا ۔حکومت نے پارلیمانی کمیٹیوں میں نیب بارے کی گئی بحث ومباحثہ کابھی ریکارڈحاصل کرلیاہے اس کابھی جائزہ لیاجائیگااور جن جن معاملات پر سیاسی جماعتوں نے تحفظات کااظہار کیاتھااس کاازسرنوجائزہ لیے جائیگااور اس کے بعدحتمی طورپر قانون سازی کی جائیگی ۔ریکارڈمیں کمیٹیوں میں زیربحث معاملات پر سینکڑوں صفحات شامل ہیں ۔سابق وفاقی وزیرقانون زاہدحامد،فرحت اللہ بابر ،سمیت دیگر ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے اٹھائے گئے بعض اہم نکات بھی اس ریکارڈ کا حصہ ہیں ۔ذرائع نے یہ بھی بتایاکہ وفاقی حکومت کووکلاء کی اعلیٰ اختیاراتی تنظیمات کی جانب سے نیب قوانین میں بہتری کے لیے بعض سفارشات بھی موصول ہوئی ہیں جن میں نیب کے کردار پر تحفظات کااظہار کیاگیاہے اور کہاگیاہے کہ نیب قوانین کوامتیازی طورپر استعمال نہیں کیاجاناچاہیے ۔بھجوائی گئی سفارشات میں مزیدکہاگیاہے کہ نیب قوانین کوہی موثر بنایاجائے اور ان میں موجودسقم کودو رکیاجائے قوانین کے عملی نفازکے دوران ملزمان کے خلاف آرٹیکل 10اے کے تحت شفاف ٹرائل کابھی خیال رکھاجائے ۔نیب افسران کااپنااحتساب اور اس کاطریقہ کاربھی واضح کرنے کی ضرورت پر بھی زوردیاگیاہے ۔سفارشات میں کہاگیاہے کہ قومی احتساب بیورو(نیب)کوبطورادارہ آئین وقانون میں حاصل بعض اختیارات کوسیاسی بنیادوں پر استعمال نہ کیاجائے ۔زیادہ لوٹ کھسوٹ کرنے والے ملزمان کوپلی بارگین کے ذریعے رہاکرنے اور ان سے محض کم رقم پر سمجھوتہ بھی نہیں کیاجاناچاہیے ۔واضح رہے کہ وفاقی وزیر قانون و انصاف بیرسٹر فروغ نسیم بھی کہ چکے ہیں کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے قوانین میں ترمیم اس ادارے کے کرپشن کے مقدمات سے نمٹنے کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ حکومت اور اپوزیشن نے نیب قانون میں ترمیم کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے تمام امور اتفاق رائے سے طے کر لیے تھے ، پارلیمانی کمیٹی 20 ارکان پر مشتمل ہوگی، سینیٹ سے 7 اور قومی اسمبلی سے 13 ارکان کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔