پشاور/ اسلام آباد(نمائندہ امت/ امت نیوز) پشاور پولیس کے ایک سینئر افسر طاہر خان داوڑ کو افغانستان میں بے دردی سے قتل کردیا گیا۔اسلام آباد سے 27اکتوبر کو لاپتہ ہونے والے افسر کی مسخ شدہ لاش ننگر ہار میں ایک ویرانے سے برآمد ہوئی۔بعض اطلاعات کے مطابق ایس پی طاہر داوڑ کی لاش لیویز فورس نے وصول کر کے پشاور منتقل کردی ہے ،تاہم حکام مغوی ایس پی کی ہلاکت اور لاش وصولی کی تصدیق سے گریزاں ہیں۔دوسری جانب امریکی نشریاتی ادارے نے دعوی کیا ہے کہ پشاور میں اعلیٰ پولیس حکام اور اسلام آباد میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے افسران نے طاہر خان داوڑ کی طالبان عسکریت پسندوں کے ہاتھوں قتل کی تصدیق کر دی ہے۔ لاش وصول کرنے کیلئے قبائلی عمائدین کی بہت بڑی تعداد طورخم بارڈر پر جمع ہے، تاہم افغان حکام نے رات گئے تک میت حوالے نہیں کی اور اس ضمن میں دونوں ممالک کے درمیان بات چیت جاری تھی۔ افغانستان سے ملنے والی بعض اطلاعات کے مطابق مقتول کی مسخ شدہ لاش کو افغان صوبہ ننگرہار میں شیراز کیمپ کے قریب قبرستان میں امانت کے طور پر دفنایاگیا ہے۔ واضح رہے کہ ایس پی طاہر خان داوڑ 27اکتوبر کو اسلام آباد سیکٹر جی 10 سے اغوا ہوئے جس کے بعد ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا تھا۔ تاہم گزشتہ روز سوشل میڈیا پر افغانستان کے صوبے ننگر ہار سے ملنے والی ایک لاش کی تصویر وائرل ہوئی ۔جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ایس پی طاہر خان داوڑ کی ہے۔لاش کے اوپر پشتو زبان میں سادہ کاغذ پر تحریر کردہ ایک خط بھی پڑاہے جس میں قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ طاہر خان نے ولایت خراساں کے بے شمار افراد کو گرفتار اور ہلاک کیا ہے وہ آج انجام تک پہنچ گیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق خط داعش کی حامی تنظیم کے ترجمان محمد خراسانی نے لکھا ہے۔ شمالی وزیرستان سے منتخب ہونے والے ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ نے تصدیق کی ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویر طاہر خان داوڑ کی ہی ہے۔ پشاور پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے بھی آف دی ریکارڈ گفتگو میں ایس پی طاہر داوڑ کے قتل کی تصدیق کردی تاہم سرکاری سطح پر تسلیم کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔دوسری جانب پشاور کے ایک سینئر صحافی سمیع داوڑ نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو خط ملا ہے وہ سادہ کاغذ پر ہے جبکہ طالبان کسی بھی واقعہ کی ذمہ داری اپنے لیٹر پیڈ پر قبول کرتے ہیں، سادہ کاغذ پر تو کوئی بھی خط جاری کرسکتا ہے۔ طورخم میں حکام کے بقول، طاہر خان داوڑ کو سرحد کے قریب مہمند درہ میں، جبکہ دوسری اطلاع کے مطابق ان کو دربابا کے علاقے میں قتل کیا گیا۔ دونوں علاقوں میں پاکستان سے افغانستان منتقل ہونے والے عسکریت پسندوں کے ٹھکانے ہیں۔ ادھر آئی جی خیبر پختون صلاح الدین خان محسود کا کہنا ہے کہ متعلقہ اداروں کے ذریعے افغان حکومت سے رابطے میں ہیں، فی الوقت اس خبر کی تصدیق ممکن نہیں، تصدیق کی صورت میں سرکاری بیان جاری کیا جائے گا۔دوسری جانب وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کا اس حوالے سے کہنا ہےکہ طاہر داوڑ کا معاملہ حساس ہے، اس پر بات نہیں کر سکتے۔شہریار آفریدی نے مزید کہا کہ جن کے پیارے لاپتا ہیں ان کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے، قومی سلامتی اور کسی کی زندگی کی بات ہے، اوپن فورم پر بات نہیں کر سکتے۔ایک سوال کے جواب میں شہریار آفریدی نے کہا کہ سوشل میڈیا پر غلط قسم کی خبریں پھیلائی جاتی ہیں، آج کل فوٹو شاپڈ تصویریں بنا کر سوشل میڈیا پر پھیلا دی جاتی ہیں، اس قسم کی خبریں نہ پھیلائی جائیں، اور پھر آپ پر ففتھ جنریشن اور سائبر وار فیئر نافذ کر دی گئی ہے۔واضح رہے کہ 27اکتوبر کو ایس پی طاہر داوڑ اپنے گھر اسلام آباد سے واک کیلئے نکلے تھےجس کے بعد سے وہ لاپتہ تھے ، بعد ازاں ان کا موبائل فون کچھ دیر کےلئے آن ہوا تھا جس سے اہلیہ کو برقی پیغام دیا گیا کہ ” میں ضروری کام کی غرض سے آیا ہوا ہوں اور خیریت سے ہوں “مغوی کی آخری لوکیشن جہلم تھی۔ واقعے کے بعد پشاور اور اسلام آباد پولیس پر مشتمل ایک تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی گئی تھی تاہم آخری دن تک کیس کی تفتیش میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔