نمائندہ امت
خیبر پختون پولیس کے ایس پی طاہر خان داوڑ کے اغوا اور قتل کا معاملہ پرسرار ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق تحقیقاتی اداروں کو اعلیٰ ترین سطح پر قتل کے محرکات اور ملزمان کو بے نقاب کرنے کی ہدایات کردی گئی ہیں۔ شدت پسند کالعدم تنظیم نے مختلف صحافیوں اور میڈیا ہائوسز کو جاری کردہ بیان میں طاہر خان داوڑ کے قتل سے اعلان لاتعلقی کرنے کے علاوہ صحافیوں کو دھمکیاں بھی دی ہیں۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق بدھ کی شام طاہر خان داوڑ کی میت جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے پہنچا دی گئی تھی۔ جبکہ جلال آباد سے طورخم بارڈر پہنچانے کے انتظامات جاری تھے۔ شہید پولیس افسر کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا جائے گا۔ پشاور میں طاہر خان کی رہائش گاہ پر تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ رات سوشل میڈیا پر طاہر خان داوڑ کے قتل کی اطلاعات اور خط کے ہمراہ لاش کی تصاویر وائرل ہوئی تھیں۔ جبکہ خط کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ کالعدم تنظیم ولایت خراسان کے ترجمان کی طرف سے ہے، جس میں قتل کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تاہم بدھ کے روز کالعدم شدت پسند تنظیم کی جانب سے مختلف صحافیوں اور میڈیا ہائوسز کو ایک اور خط موصول ہوا، جس میں کہا گیا ہے کہ اس قتل سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس خط میں صحافیوںکو بھی سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق شدت پسند تنظیم کی جانب سے دو مختلف خطوط میں طاہر خان داوڑ کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے اور نہ کرنے پر کنفیوژن پیدا ہوگئی ہے۔ کچھ حلقے پولیس افسر کے قتل کو شدت پسند تنظیم سے منسوب کررہے ہیں۔ جبکہ بعض کے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق طاہر خان داوڑ کے قتل کا اعلیٰ ترین سطح پر نوٹس لے لیا گیا ہے اور تمام پہلوئوں سے تفتیش و تحقیق کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مقتدر اداروں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس قتل کے محرکات اور اصل ملزماں کو ہر صورت بے نقاب کیا جائے گا اور اس کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ ذرائع کے بقول طاہر خان داوڑ کے قتل کی تفتیش میں بہت کچھ سامنے آنے کا امکان ہے۔ تاہم اب تک کی تحقیقات کی تفصیلات کو ظاہر نہیں کیا جارہا ہے۔ کچھ حلقوں کے نزدیک کوئی شدت پسند تنظیم اس طرح اغوا اور قتل نہیں کرتی اور نہ ہی اس طرح ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ جبکہ بعض حلقوں کے مطابق شدت پسند تنظیم کی جانب سے وضاحت سیکورٹی اداروں کی جانب سے انتہائی سخت کارروائی کے خوف سے جاری کی گئی ہے۔ تاہم اس بارے میں کوئی حتمی رائے سامنے نہیں آئی ہے جبکہ تحقیقاتی ادارے بھی اس پر مکمل خاموش ہیں۔
’’امت‘‘ کا نمائندہ بدھ کو رات گئے تک طورخم بارڈر پر موجود تھا۔ نمائندہ نے بتایا کہ طورخم بارڈر پر اعلیٰ سیکورٹی اور پولیس حکام طاہر خان کی میت وصول کرنے کیلئے موجود ہیں اور بارڈر پر سخت ترین حفاظتی اقدامات کئے گئے ہیں۔ کسی کو بھی آنے جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ جبکہ بارڈر کے اس پار افغانستان میں بھی سخت حفاظتی اقدامات نظر آرہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ رات کے وقت میت پاکستانی حکام کے حوالے کی جائے۔ ایس پی پشاور عبدالسلام خالد بھی طورخم بارڈر پر موجود ہیں۔ انہوں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق طاہر خان داوڑ کی میت جلال آباد میں پاکستانی سفارت خانے تک پہنچا دی گئی ہے، جہاں سے کسی بھی وقت طورخم بارڈ کیلئے روانہ کی جا سکتی ہے۔ طاہر خان داوڑ کی میت کو مکمل سرکاری پروٹوکول دیا جائے گا اور شہید پولیس افسر کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا جائے گا۔ دوسری جانب رات گئے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ممکنہ طور پر میت جمعرات کے روز طورخم بارڈر پر لائی جائے گی۔
واضح رہے کہ تقریباً بیس روز قبل ایس پی طاہر خان داوڑ کے اسلام آباد سے اغوا کی اطلاعات منظر عام پر آئی تھیں۔ طاہر خان داوڑ خیبر پختون میں اپنی بہادری کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ انہوں نے شدت پسند تنظیموں کے دہشت گردوں کے ساتھ متعدد مقابلے بھی کئے تھے۔ طاہر خان داوڑ کے قتل کے حوالے سے پہلے سوشل میڈیا پر اطلاعات آئیں اور پھر پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ طاہر خان کی لاش کو افغانستان کے علاقے دور بابا سے مومند درہ منتقل کیا جا چکا ہے اور وہاں سے جلال آباد میں پاکستانی قونصل جنرل کے حوالے کی جائے گی، جس کے بعد طورخم بارڈر سے پشاور لائی جائے گی۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق سوشل میڈیا کی اطلاعات پر طاہر خان کے اہل خانہ یقین نہیں کر رہے تھے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مقتول پولیس افسر کے قریبی دوست اور داوڑ قومی جرگہ کے رہنما سمیع اللہ داوڑ کا کہنا ہے کہ منگل کی شام وہ پولیس افسر کے بھائیوں سے ملنے ان کے گھر گئے، جہاں اس وقت پولیس افسر کے رشتہ دار اور بچے بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب ان کے بھائیوں سے سوشل میڈیا پر چلنے والے تصویروں اور ان کے ’قتل‘ سے متعلق استفسار کیا گیا تو بھائیوں اور بچوں نے زارو قطار رونا شروع کردیا، جس سے ماحول انتہائی افسردہ ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ طاہر خان داوڑ کے اہل خانہ گزشتہ 20 روز کے دوران جس اذیت سے گزرے ہیں، اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ خبر رساں ادارے کے مطابق سمیع اللہ داوڑ نے بتایا کہ وزیرستان کے ایک جرگہ کے سربراہ صلاح الدین محسود سے ان کی ملاقات ہوئی تھی، جس میں ان کی طرف سے بار بار یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ طاہر داوڑ بہت جلد بخیریت گھر پہنچ جائیں گے۔
ادھر پشاور کے علاقے حیات آباد میں واقع مقتول طاہر خان داوڑ کی رہائش گاہ پر منگل کی شام سے تعزیت کرنے والے افراد کا تانتا باندھا ہوا ہے ۔ حیات آباد کے فیز 6 میں طاہر داوڑ کی رہائش گاہ کے قریب ایک خالی پلاٹ پر گزشتہ شام سے ٹینٹ لگا ہوا ہے اور وہاں تعزیت کیلئے آنے والوں کیلئے درجنوں کرسیاں رکھی ہیں۔ مقتول کی رہائش گاہ کے راستے میں جگہ جگہ پولیس اہلکار کھڑے ہیں۔ تعزیت کیلئے آنے والوں میں بیشتر لوگوں کا تعلق وزیرستان سے ہے، جن میں قومی جرگوں کے مشران اور قبائلی ملکان شامل ہیں۔
٭٭٭٭٭