عافیہ کی رہائی کے حوالے سے ڈاکٹر فوزیہ کو زبانی یقین دہانیاں

0

امت رپورٹ
امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اسلام آباد میں مختلف وزرا اور دیگر حکومتی ذمہ داران سے ملاقاتیں کی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ملاقات کے موقع پر عافیہ صدیقی کی پاکستان منتقلی پر گفتگو ہوئی۔ تاہم ذرائع نے بتایا کہ ڈاکٹر فوزیہ بڑی امیدیں لے کر وفاقی دارالحکومت پہنچی تھیں۔ تاہم ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے حوالے سے اب تک حکومت نے انہیں صرف زبانی یقین دہانیاں کرائی ہیں۔ اہم وزرا سے میٹنگز کے باوجود ڈاکٹر فوزیہ یہ معلوم کرنے میں ناکام رہیں کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے سلسلے میں پاکستانی حکام امریکہ کے ساتھ کس سطح پر بات چیت کر رہے ہیں اور یہ معاملہ کس اسٹیج پر ہے۔ واضح رہے کہ بعض حلقوں کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت نے آسیہ مسیح کے ایشو کو دبانے کے لئے عافیہ کی وطن واپسی کا شوشہ چھوڑا ہے، تاکہ میڈیا اور عوام کی توجہ مبذول کرائی جا سکے۔ ذرائع کے بقول اسلام آباد پہنچنے والی ڈاکٹر فوزیہ کو اگرچہ وزرا اور حکومتی ذمہ داران کی طرف سے نہایت اہمیت دی جا رہی ہے۔ لیکن چونکہ عافیہ کی منتقلی کے بارے میں کسی قسم کی تحریری یقین دہانی نہیں کرائی گئی، لہٰذا عافیہ کی فیملی بھی اس وسوسے میں مبتلا ہے کہ کہیں واقعی میڈیا اور عوام کی توجہ مبذول کرانے کے لئے تو یہ سلسلہ شروع نہیں کیا گیا؟
ذرائع نے بتایا کہ وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ڈاکٹر فوزیہ کی ملاقات ڈیڑھ گھنٹے طویل تھی۔ اس موقع پر وزیر خارجہ کا رویہ نہایت مثبت رہا۔ اور انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے پوری کوشش کریں گے۔ اس پر ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا تھا کہ وہ کوشش کریں گے یا کوشش شروع کر رکھی ہے؟ اس پر وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ سے بات چیت جاری ہے۔ لیکن انہوں نے یہ تفصیل نہیں بتائی کہ یہ بات کس سے کی جا رہی ہے۔ اور اب تک کیا پیش رفت ہو چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا تھا کہ امریکہ میں عافیہ کے وکیل اور بہت سارے سپورٹرز موجود ہیں، جو عافیہ کی منتقلی کے حوالے سے کافی کام کر چکے ہیں اور اس سلسلے میں حکومت کی مدد اور معاونت کر سکتے ہیں۔ کہیں یہ نہ ہو کہ حکومت عافیہ کی رہائی کے حوالے سے اپنی کوششیں فرسٹ اسٹیپ سے شروع کرے۔ جبکہ امریکہ میں موجود عافیہ کے وکیل آٹھویں اسٹیپ پر ہوں۔ لہٰذا مشترکہ کوششیں کی جانی چاہئیں۔ اس پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ عافیہ کے وکلا نے اب تک جو ورکنگ کی ہے، اس کی تفصیلات فراہم کر دیں۔ اس کی اسٹڈی کے بعد دوبارہ آپ سے رابطہ کیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ ڈاکٹر فوزیہ نے امریکہ میں موجود وکلا کی جانب سے عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں اب تک کی جانے والی ورکنگ پر مشتمل پیپرز وزیر خارجہ کے حوالے کئے۔ پیپرز میں عافیہ کی صدارتی معافی سے متعلق امریکی انتظامیہ کو جمع کرائی جانے والی دستاویزات اور باہمی معاہدے کے علاوہ قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں کی جانے والی کوششوں کے ذکر سمیت کُل 46 پوائنٹس موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیر خارجہ نے یہ پیپرز اپنے پاس رکھ لئے اور ڈاکٹر فوزیہ کو کہا کہ وہ دستاویزات کی اسٹڈی اور دیگر متعلقہ معاملات کو دیکھ کر ایک دو ہفتے بعد ان سے دوبارہ رابطہ کریں گے۔ ذرائع کے مطابق ملاقات کے موقع پر شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی کا ایشو بھی ڈسکس نہیں ہوا۔
اسلام آباد میں فوزیہ صدیقی نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان سے بھی ملاقات کی۔ ان دونوں کی جانب سے بھی یہی یقین دہانی کرائی گئی کہ حکومت ڈاکٹر عافیہ کی پاکستان منتقلی کے لئے پوری کوششیں کر رہی ہے۔ جبکہ حکومت اور اپوزیشن سے رکھنے والے کئی سینیٹرز نے بھی ڈاکٹر فوزیہ سے ملاقات کی اور کہا کہ وہ عافیہ کی رہائی کا معاملہ ایوان بالا میں بھی اٹھائیں گے۔ اس سلسلے میں بدھ کے روز ہونے والے سینیٹ اجلاس کی کارروائی دیکھنے کے لئے ڈاکٹر فوزیہ کو بھی مدعو کیا گیا۔ سینیٹرز کا کہنا تھا کہ اجلاس میں عافیہ کی منتقلی کا ایشو ایجنڈے کا حصہ نہیں۔ تاہم وہ پبلک پوائنٹ آف انٹرسٹ کے تحت ملنے والے مختصر وقت میں یہ معاملہ اٹھائیں گے۔ تاکہ سینیٹ کے اگلے اجلاس میں عافیہ کی منتقلی کا ایشو ایجنڈے پر رکھا جا سکے۔
ادھر امریکہ میں موجود عافیہ کی رہائی کی کوششیں کرنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ وسط مدتی انتخابات میں ٹرمپ کی شکست کے بعد موجودہ امریکی انتظامیہ شکیل آفریدی کی حوالگی کی ضرورت زیادہ محسوس کرنے لگی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان سے رابطوں میں بھی تیزی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ سمجھتی ہے کہ اگر موجودہ حالات میں شکیل آفریدی کی منتقلی ہو جاتی ہے تو اس سے نہ صرف صدر ٹرمپ کی گرتی مقبولیت کو روکا جا سکتا ہے۔ بلکہ اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں بھی ٹرمپ کو سیاسی فائدہ پہنچے گا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اس صورت حال میں اگر حکومت پاکستان شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی حوالگی کا سنجیدہ مطالبہ کرتی ہے تو اسے رد کرنا ٹرمپ انتظامیہ کے لئے مشکل ہو گا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے بعض ذمہ داران عافیہ کے وکلا کو پہلے ہی یہ عندیہ دے چکے ہیں۔
ادھر ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا ہے کہ اس بار ایسی فضا ہے، جس نے عافیہ کی واپسی کے امکانات بڑھا دیئے ہیں اور اس کے ایک سے زائد طریقہ کار موجود ہیں۔ اب اس کا انحصار حکومت پر ہے کہ وہ اس کا فائدہ اٹھاتی ہے یا پچھلی حکومتوں کی طرح ان مواقع کو ضائع کر دیتی ہے۔ ’’امت ‘‘ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ کا مزید کہنا تھا کہ ’’عافیہ کی رہائی کے حوالے سے گزشتہ حکومتوں نے بھی ہم سے بہت سارے وعدے کئے۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم نواز شریف نے تو میری والدہ کو اپنی ماں قرار دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ انہوں نے اپنی جنت آپ کے قدموں میں رکھ دی ہے، لہٰذا وہ عافیہ کی واپسی کا وعدہ ہر صورت پورا کریں گے۔ لیکن ان کی حکومت چلی گئی اور وعدہ پورا نہیں ہو سکا۔ چونکہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، لہٰذا موجودہ حکومت کی محض زبانی یقین دہانیوں پر ہم فوری طور پر کوئی امید باندھنا نہیں چاہتے کہ یہ امید پوری نہ ہونے پر ماضی جیسی ذہنی کیفیت سے دوبارہ گزرنا پڑے۔ وزیر خارجہ نے نہایت توجہ سے میری بات سنی۔ ان کا رویہ بھی بہت اچھا تھا۔ لیکن حکومت کے اصل ارادوں کا اس وقت یقین آئے گا جب تحریری طور پر ہمیں بتایا جائے کہ عافیہ کی رہائی کے لئے اب تک کیا اقدامات کئے جا چکے اور کیا کئے جا رہے ہیں۔ ورنہ سب کچھ زبانی جمع خرچ تصور ہو گا۔ جیسا کہ پچھلی حکومتیں کرتی رہیں۔ اگر حکومت واقعی مخلص ہے تو اسے تحریری یقین دہانی دینے میں کوئی خوف نہیں ہونا چاہئے‘‘۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More