امت رپورٹ
شاہ لطیف ٹاؤن میں موٹر سائیکلوں کے پارٹس بنانے والی ہنڈا اٹلس کمپنی میں گیس لائن لیکیج کے سبب ہونے والے حادثے میں 6 مزدوروں کی ہلاکت کا مقدمہ تاحال درج نہیں کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس اور فیکٹری انتظامیہ کی ملی بھگت سے معاملے کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کمپنی انتظامیہ حادثے کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کر رہی ہے، جبکہ پولیس اور متعلقہ سرکاری ادارے بھی یہ نہیں بتا رہے کہ حادثہ اتفاقی طور پر رونما ہوا یا کمپنی انتظامیہ کی غفلت و لاپروائی سے قیمتی انسانی جانی ضائع ہوئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عینی شاہدین کے بیانات اور جائے حادثہ کے معائنے کے بعد ابتدائی تحقیقات کے نتائج کو چھپایا جارہا ہے۔ ہلاک ہونے والے مزدوروں کے ورثا کا کہنا ہے کہ زندہ جل کر کوئلہ ہوجانے والے ان کے پیاروں کی لاشیں سول اسپتال میں ان کے حوالے کر دی گئیں، جس کے بعد فیکٹری انتظامیہ نے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔ تدفین کے بعد فیکٹری انتظامیہ سے بات کریں گے اور پھر مقدمہ درج کرائیں گے۔ جبکہ ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن کا کہنا ہے کہ مزدوروں کے ورثا مقدمہ درج کرانے آئیں گے تو ایف آئی ار درج کرکے تفتیش کو مزید آگے بڑھائیں گے۔
واضح رہے کہ نیشنل ہائی وے قائدآباد پر منزل پیٹرول پمپ کے قریب واقع ہنڈا اٹلس فیکٹری میں آگ لگنے کا واقعہ بدھ کی دوپہر ایک بجے پیش آیا تھا۔ جھلس کر زخمی ہونے والے 6 افراد سلمان احمد، محمد عامر، عمران خاصخیلی، عنایت، خالد اور شاہ زمان کو سول اسپتال کے برنس وارڈ لے جایا گیا۔ ایم ایل او ڈاکٹر نور احمد کے مطابق زخمی 100 فیصد جھلسے ہوئے تھے اور ان کی حالت تشویشناک تھی۔ فوری طور پر انہیں برنس وارڈ منتقل کیا گیا، جہاں وہ تقریباً بارہ گھنٹے بعد ہلاک ہوگئے۔ ذرائع کے مطابق سول اسپتال سے مزدوروں کی لاشیں ان کے ورثا کے حوالے کر دی گئی تھیں۔ مرنے والوں کا تعلق قائدآباد، میمن گوٹھ اور ملیر کھوکھراپار کے قریبی گوٹھوں سے تھا۔ ذرائع کے بقول سول اسپتال میں مزدروں کے علاج معالجے کے دوران فیکٹری انتظامیہ کے لوگ اور شاہ لطیف ٹاؤن تھانے کے افسران موجود تھے، جو معاملے کو دباتے رہے۔ میڈیا کے نمائندوں کو جھلسے ہوئے مزدوروں کے قریب نہیں آنے دیا گیا۔ وہاں موجود پولیس افسران کا کہنا تھا کہ فیکٹری میں بوائلر زور دار دھماکے سے پھٹا، جس کی اطلاع ملنے پر پولیس موقع پر گئی اور فائر بریگیڈ نے آگ بجھائی تھی۔ جبکہ واقعے کی وجوہات جاننے کیلئے ’’امت‘‘ کی ٹیم ہنڈا اٹلس کمپنی پہنچی تو سیکورٹی گارڈز نے بتایا کہ فیکٹری انتظامیہ نے میڈیا کے نمائندوں کو اندر آنے سے منع کر رکھا ہے۔ کافی بحث و تکرار کے باوجود ’’امت‘‘ ٹیم کو اندر نہیں جانے دیا گیا۔ اسی دوران ہنڈا کمپنی آنے والے ڈی ایس پی شاہ لطیف ٹاؤن، علی حسن شیخ کا کہنا تھا کہ بظاہر تو لگتا ہے کہ حادثہ اتفاقی طور پر رونما ہوا ہے۔ البتہ دونوں پہلوؤں سے تحقیقات کی جارہی ہیں کہ اتفاقی حادثہ ہے یا فیکٹری والوں کی غفلت و لاپرواہی سے قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ تاہم وہ اس کیس کے حوالے سے تفصیلی بات کرنے سے گریز کرتے رہے۔ چھ مزدوروں کی ہلاکت پر چونکہ وزیراعلیٰ سندھ نے تحقیقات کا حکم دیا تھا، اس لئے لیبر ڈپارٹمنٹ اور ٹیکنیکل شعبوں کے لوگ بھی فیکٹری پہنچے تھے۔ تاہم فیکٹری انتظامیہ سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے ذمہ داران حادثے کے حوالے سے میڈیا سے کوئی بات شیئر کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ ’’امت‘‘ ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن تھانے جاکر ایس ایچ او سب انسپکٹر گنور مہر سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی میتیں ورثا کے حوالے کی گئی ہیں۔ تدفین کے بعد مرنے والوں کے اہل خانہ پولیس سے رابطہ کریں گے تو مقدمہ درج کیا جائے گا اور تفتیش ہوگی۔ انہوں نے اس کیس کے حوالے سے مزید بات کرنے سے انکار کردیا۔ جبکہ ڈیوٹی افسر ارشاد کا کہنا تھا کہ ہنڈا اٹلس کمپنی میں بدھ کی دوپہر پونے ایک بجے کے قریب واقعہ پیش آیا تھا۔ ان کو فیکٹری کے ذمہ دار راشد نے بتایا تھا کہ فیکٹری میں قائم تین بھیٹوں کو گیس فراہم کرنے والی لائن میں لیکیج کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی اور قریب ہی کام کرنے والے 6 مزدور جھلس گئے ہیں، ان کو سول اسپتال لے کر جا رہے ہیں۔ بعدازاں تمام مزدور دوران علاج اسپتال میں دم توڑ گئے تھے۔ پولیس افسر کا کہنا تھا کہ جمعرات کو ان مزدوروں کی تدفین کھوکھرا پار، میمن گوٹھ اور قائد آباد کے قبرستانوں میں کردی گئی۔ ابھی تک مرنے والوں کے ورثا مقدمہ درج کرانے کیلئے تھانے نہیں آئے ہیں۔ تھانے کے افسران فیکٹری گئے تھے، وہاں انہوں نے جھلسنے والے مزدوروں کے ساتھیوں اور عینی شاہدین کے بیانات لئے ہیں۔ ڈیوٹی افسر ارشاد کے بقول اعلیٰ افسران نے واقعہ کی تحقیقات کے حوالے سے بات چیت سے منع کیا ہے اور مرنے والوں کے ورثا کے فون نمبر اور ایڈریس بھی کسی کو نہ دینے کی تاکید کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فیکٹری والے پولیس کے ساتھ مل کر چھ مزدوروں کی ہلاکت کا معاملہ دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جبکہ فیکٹری میں جھلس کر زخمی ہونے والوں کے بیانات لینے اور حادثے کی تفتیش کرنے والے پولیس افسر زر ولی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ زخمیوں کی حالت انتہائی خراب تھی، وہ بے ہوشی میں ہی چل بسے، انہوں نے کوئی بیان نہیں دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فیکٹری انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے راشد نامی شخص نے جو بیان دیا، اس کے حوالے سے وہ کچھ نہیں بتا سکتے۔ ابھی تحقیقات چل رہی ہیں، فیکٹری انتظامیہ بھی نہیں چاہتی کہ معاملہ زیادہ پھیل جائے۔ ’’امت‘‘ نے زخمی ملازمین کو اسپتال لے جانے والے فیکٹری انتظامیہ کے راشد سے فون پر رابطہ کیا تو اس کا کہنا تھا کہ فیکٹری میں قائم بھٹیوں کو گیس سپلائی کرنے والی لائن میں لیکیج کی وجہ سے دھماکہ ہوا اور آگ بھڑک اٹھی تھی، جس کے نتیجے میں بھٹیوں کے قریب موجود افراد جھلس گئے۔ غلطی کس کی تھی یا حادثہ اتفاقی ہے۔ اس حوالے سے ابھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ پولیس کو بیان دے چکے ہیں۔
جھلس کر جاں بحق ہونے والے عمران خاصخیلی کے کزن محمد ظہور نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’حادثے بارے میں ہمیں بدھ کی دوپہر ٹی وی چنیل کی خبروں سے پتا چلا تھا۔ فوری طور پر ہنڈا کمپنی والوں رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ عمران خاصخیلی شدید زخمی ہے۔ ہم سول اسپتال پہنچے تو وہاں فیکٹری انتظامیہ کے لوگ اور پولیس والے موجود تھے۔ بعدازاں عمران کی لاش حوالے کرتے ہوئے پولیس نے کہا کہ تدفین کے بعد رابطہ کرنا‘‘۔ محمد ظہور نے بتایا کہ عمران ہنڈا کمپنی میں چار سال سے بطور آپریٹر کام کررہا تھا۔ وہ دو بچوں کا باپ تھا۔ والد کے انتقال کے بعد وہ تنہا گھر والوں کی کفالت کررہا تھا۔ اس کی والدہ غم سے نڈھال ہیں۔ ابھی تک علم نہیں کہ فیکٹری والے غریب خاندان کی کوئی مدد کریں گے یا نہیں۔ صورتحال دیکھ کر مقدمہ درج کرائیں گے۔ جاں بحق ہونے والے عامر کے رشتے دار عنایت اللہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ تدفین سے فارغ ہونے کے بعد صورتحال دیکھ کر مقدمہ درج کرائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ چھ افراد زندہ جل کر کوئلہ ہوگئے۔ سندھ حکومت تحقیقات کرائے اور ورثا کو معاوضہ دلوائے۔ اگر حادثہ غفلت کی وجہ سے رونما ہوا ہے تو فیکٹری انتظامیہ کیخلاف کارروائی کی جانی چاہئے۔
واضح رہے کہ کراچی کے صنعتی علاقوں میں واقع فیکٹریوں میں حادثات کے دوران اکثر قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ تاہم فیکٹری انتظامیہ کے لوگ پولیس اور دیگر متعلقہ سرکاری اداروں کے ساتھ جوڑ توڑ کرکے معاملے کو دبا دیتے ہیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں ناکارہ سیفٹی سسٹم، حفاظتی آلات کی کمی، آگ بجھانے کے فرسودہ آلات سمیت غیر تربیت یافتہ عملے سے حساس نوعیت کے کام لینے کے معاملات کو چھپایا جاتا ہے۔ جبکہ حادثات کی صورت میں مرنے والے مزدوروں کے غریب ورثا معمولی رقم دیکر خاموش کرادیا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭