سندھ یونیورسٹی کے 30 افسرڈیڑھ ارب کرپشن کے ذمہ دار قرار

0

کراچی(رپورٹ: راؤ افنان) سندھ یونیورسٹی میں 2 سال کے دوران ڈیڑھ ارب سے زائد کی کرپشن کا انکشاف ہوا ہے، 22 ماہ میں 40 لاکھ لیٹر ایندھن پھونک دیا گیا، جبکہ28 ماہ سے جامعہ کا آڈٹ ہی نہیں ہوا۔ اینٹی کرپشن نے تحقیقات کی رپورٹ صوبائی حکومت کو ارسال کردی، رپورٹ میں مالی سال 18-2017 کے دوران 78 کروڑ سے زائد کرپشن کی نشاندہی کی گئی جبکہ 35 سے زائد کمپنیوں اور 30 سے زائد افسران کو ملزم ظاہر کیا گیا ہے۔ جامعہ افسران نے مقدمہ درج ہونے سے قبل ہی ضمانت قبل از گرفتاری کی تیاری کرلی۔ تفصیلات کے مطابق ‘‘امت ’’کی نشاندہی پرسندھ یونیورسٹی کیخلاف مالی و انتظامی بدعنوانی کی اینٹی کرپشن تحقیقات مکمل ہوگئی ہے، جس کی رپورٹ صوبائی حکومت کو ارسال کردی گئی۔ ذرائع کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ یونیورسٹی انتظامیہ نے منظور نظر کنٹریکٹرز کمپنیوں کی ملی بھگت سے صرف 18-2017 میں 78 کروڑسے زائد کا غبن کرتے ہوئے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جامعہ انتظامیہ نے ٹرانسپورٹ، تزئین و آرائش، ترقیاتی کام، خریداری،کنٹی جنسی، مینٹیننس، جامعہ پیٹرول پمپ اور سی این جی اسٹیشن کی آمدن کی مد میں غبن کر کے جامعہ کے خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ یونیورسٹی انتظامیہ نے ایندھن کی مد میں سب سے زیادہ غبن کیا اور صرف افسران و ملازمین نے 22 ماہ میں 40 لاکھ لیٹر سے زائد کا ایندھن پھونک ڈالا۔ معلوم ہوا ہے کہ مالی سال 17-2016 میں فیول کا بجٹ 10کروڑ روپے مختص کیا، تاہم مالی سال 18-2017 میں فیول بجٹ 4 کروڑ روپے تجاوز کیساتھ 14 کروڑ روپے تک جا پہنچا تھا اور جولائی سے فیول کے اخراجات 15 کروڑ سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اینٹی کرپشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں جامعہ وائس چانسلر فتح محمد برفت،رجسٹرار سلیم چانڈیو، سرفراز سولنگی، سابق ڈائریکٹر فنانس معشوق صدیقی، امیر ابڑو، فہیم مغل، مقصود جمالی، انجینئر شفیع میمن، ساجد قیوم میمن، منیرالدین سومرو، رفیق بروھی، فیصل زماں مغل، اختر مغل، ریاض قاضی، ندیم آرائین، حفیظ ابڑو، خلیل کھنبانی، بیدل مسرور، عثمان منگی، اسلم کنبوہ ، شہناز بلوچ و دیگر کے نام بطور ملزمان تحریر کئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزمان نے ضمانت قبل از گرفتاری کی تیاریاں مکمل کر رکھی ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ جامعہ کے 2 افسران وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں اور انہیں رعایت دی جا رہی ہے۔ دوسری جانب انکشاف ہوا ہے کہ مالی سال 17-2016 اور18-2017 میں جامعہ کے خزانے کو ڈیڑھ ارب سے زائد کا چونا لگایا جا چکا ہے، جس کی جامعہ اساتذہ بھی متعلقہ اداروں کو نشاندہی کر چکے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ 22 ماہ میں جامعہ میں بڑے پیمانے پر مالی و انتظامی بے ضابطگیوں پر اساتذہ نے صوبائی حکومت سے اسپیشل آڈٹ کا مطالبہ کیا، تاہم صوبائی حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سندھ یونیورسٹی کا آخری بار آڈٹ 16-2015 میں کیا گیا تھا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More