سرفروش

0

عباس ثاقب
سکھونتی کورکی خواہش تھی کہ میں رات کا کھانا سب گھر والوں کے ساتھ حویلی میں ہی کھاؤں لیکن مجھے معلوم تھا کہ دسترخوان پر سارے خاندان کے ساتھ بیٹھا تو گھوم گھام کر میری دن بھر کی آوارہ گردی ایک بار پھر موضوع گفتگو بن جائے گی اور میری زبان کی معمولی سی لغزش سے ساری کہانی جھوٹ کا پلندا ثابت ہوسکتی ہے۔ چنانچہ میں نے کھانے سے پہلے غسل اور کچھ دیر آرام کا ارادہ ظاہر کیا، جس پر مجھے مہمان خانہ جانے کی اجازت مل گئی۔
اتنی سردی میں غسل کا تو خیر میرا کوئی ارادہ تھا ہی نہیں، البتہ نیرج کی طرف سے مہیا کردہ گرم پانی سے اچھی طرح منہ ہاتھ دھولیے۔ غسل خانے سے باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ امردیپ میرا انتظار کررہا ہے۔ ’’یار میں نے سوچا دونوں بھائی ایک ساتھ کھانا کھائیں گے۔ دراصل مجھے تم سے کل کا پروگرام بھی معلوم کرنا ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’صبح سویرے پٹیالے نکل جاؤں گا۔ مجھے عالی شان تاریخی عمارتوں نے بہت متاثر کیا ہے۔ ‘‘
امردیپ نے کہا ’’یار میں بھی تمھارے ساتھ چلتا لیکن ایک بیوپاری پارٹی آئے گی۔ میری یہاں موجودگی ضروری ہے۔ بشن دیپ کو بھی اپنی فیملی کے ساتھ لونگووال میں اپنے سسرال جانا ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’کوئی مسئلہ نہیں، مجھے اکیلے آوارہ گردی کرنے میں مزا آتا ہے۔ میرا خیال ہے گھر والوں کو جیپ کی ضرورت پڑے گی، میں بس کے ذریعے پٹیالے چلاجاؤں گا۔ ہوسکتا ہے مجھے دو تین وہیں رکنا پڑے۔ آپ لوگ آج کی طرح پریشان نہ ہونا۔‘‘
امردیپ نے کہا ’’میں نے تمھیں بتایا تھا چھوٹے بھائی کہ اب یہ جیپ تمھارے قبضے میں رہے گی، ہمیں ضرورت پڑی تو اپنے لیے سواری کا بند و بست ہمارا مسئلہ ہے۔ اچھا کیا تم نے بتا دیا۔ اب جتنے دن غائب رہو، تمھاری مرضی۔‘‘
میں نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا ’’اچھا بھائی، جو تمھارا حکم! اب میں پٹیالے کے تمام قابلِ دید مقامات کی دل کھول کر سیر کروں گا اور میلے کا بھی بھرپور لطف اٹھاؤں گا۔‘‘
امردیپ نے کہا ’’میں تمھیں وہاں گھومنے کی کچھ خاص جگہیں بتادوں۔ موتی محل کے بالکل پیچھے چار باغ ہے جو مہاراجا نرندر سنگھ نے لاہور کے شالامار باغ سے متاثر ہوکر بنوایا تھا۔ وہاں سے مشرق کی جانب شیش محل ہے، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، لاہور کے شاہی قلعے کے شیش محل سے متاثر ہوکر تعمیر کرایا گیا تھا۔ اس محل کا سب سے اہم حصہ میڈل گیلری ہے جو راجا بھوپندر سنگھ کے ان بتیس سو قیمتی میڈلز پر مشتمل عجائب گھر ہے جو انھوں نے دنیا کے مختلف ممالک سے اکٹھے کیے تھے۔ شیش محل میں ہاتھی دانت سے تیار کیے گئے شاہ کار بھی قابل دید ہیں۔‘‘
میں نے امردیپ کی فراہم کردہ معلومات میں گہری دل چسپی ظاہر کرتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا، لیکن یہ شاید اس کے لیے گفتگو کا پسندیدہ موضوع تھا۔ لہٰذا اس نے اپنی معلومات کے مزید خزانے لٹاتے ہوئے پہلے محل کے سامنے مہاراجا کی بنوائی ہوئی چھے ایکڑ رقبے پر محیط جھیل اور اس پر بنوائے گئے انوکھے لچھمن جھولے اور جھیل سے آگے طرح طرح کے جانوروں اور پرندوں کے بھس بھرے پتلوں سے سجے بناسر باغ کے بارے میں بتایا۔
ہوسکتا ہے وہ میری معلومات میں مزید اضافہ کرتا، لیکن اسی اثنا میں نیرج برتن اٹھانے آگیا۔ اس نے کہا ’’بڑے سردار جی آپ دونوں کو بلا رہے ہیں۔‘‘
امردیپ نے حیرانی سے پوچھا ’’کیوں بلارہے ہیں؟ خیریت؟‘‘
نیرج نے کہا ’’وہ بڑے سردارجی کے پاس الکھ سنگھ جی آئے ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں ان سے ملوانے کے لیے بلارہے ہیں۔‘‘
امردیپ نے قدرے ناگواری کے ساتھ کہا ’’اوہ، تو پھپھڑ جی آگئے رقم لینے۔ مجھے پتا تھا وہ ایک دو دن بھی انتظار نہیں کریں گے۔‘‘
میں نے کہا ’’لیکن آپ انھیں کہاں سے رقم دیں گے؟ ہم تو پٹیالے سے خالی ہاتھ آئے ہیں۔‘‘
امردیپ نے بدستور برہم تیوروں کے ساتھ کہا ’’رقم کا بندوبست کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے لیکن ان کی باتوں اور رویے سے ٹپکتی دولت کی ہوس سے مجھے الجھن ہوتی ہے۔‘‘
میں نے قدرے تذبذب کے بعد اپنے دل میں الکھ سنگھ کے حوالے سے موجود تشویش چھپاتے ہوئے کہا ’’آپ سے تو اسے مطلب ہے، اس لیے ملاقات ضروری ہے، لیکن مجھے کیوں بلوایا گیا ہے؟‘‘
امردیپ نے کہا ’’میرا خیال ہے پتا جی نے ڈاکوؤں کے ہاتھوں ہمارے اغوا کا قصہ پھپھڑجی کو سنادیا ہوگا۔ اب الکھ سنگھ جی اپنی محبت، ہمدردی اور تشویش کا ہمارے روبرو بھرپور اظہارکرنے والے ہیں۔‘‘
ایک بار تو میرا دل چاہا کہ جانے سے صاف انکار کردوں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ مجھے براہم دیپ نے بلوایا ہے اور ان کی بات ٹالنا مناسب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ میری غیرموجودگی میں الکھ سنگھ میرے خلاف کوئی ایسی خطرناک چال چل سکتا ہے جس کے نتیجے میں مجھ پر مہربان یہ خاندان میرے خلاف شکوک و شبہات میں مبتلا ہوجائے۔ ایسے سانپ صفت شخص کا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سامنا کرنا زیادہ آسان ہوگا۔
ہم دونوں حویلی کی نشست گاہ میں پہنچے تو براہم دیپ اور الکھ سنگھ گڑ والی چائے سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دیے۔ سکھونتی سمیت گھر کا کوئی بھی فرد وہاں موجود نہیں تھا۔ الکھ سنگھ کے لیے پوشید ہ ناپسندیدگی کے پیش نظر یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہیں تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More