پی آئی اے ٹکٹ بلنگ کا نیا سسٹم ناکارہ نکلا-دو ماہ میں کروڑوں کا نقصان

0

سید نبیل اختر
پی آئی اے میں ٹکٹ بکنگ کا نیا نظام ’’ہٹ اٹ‘‘ ناکارہ نکلا۔ ترک کمپنی کا تیار کردہ سافٹ ویئر تا حال ای آر پی نظام سے منسلک نہیں ہو سکا۔ دنیا بھر کے 33 ممالک کے 48 ہوائی اڈوں، ملک بھر کی 26 لوکیشنز کے علاوہ آف لائن و آن لائن اسٹیشنز پر اگلے 6 ماہ کیلئے سیبر کے ذریعے ہونے والی بکنگ نئے سسٹم کے تحت نہیں چل پائی۔ نیا نظام نہ چلنے سے قومی ایئر لائن کو 2 ماہ میں کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ ایجنٹوں نے بھی اپنے کسٹمرز کو پی آئی اے کے بجائے دوسری فضائی کمپنیوں پر منتقل کرنا شروع کردیا۔ مہنگے داموں خریدا گیا ای آر پی بھی ڈھائی سال گزر جانے کے باوجود مکمل طور پر نافذالعمل نہیں ہو سکا۔ ہٹ اٹ آپریشن کو کامیاب بنانے کیلئے سافٹ ویئر بنانے والے ترک انجینئرز کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔
رواں برس امریکی کمپنی سیبر سے 17 سال تک اربوں روپے کا نقصان پہنچنے کے بعد پی آئی اے نے ٹکٹوں کی ریزرویشن، فلائٹ آپریشن، کریو مینجمنٹ اور پروازوں کی آمد و رفت اور چیک ان سروس کیلئے ترکی کی کمپنی ہٹ اٹ کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ ترک کمپنی سے معاہدہ کرنے کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ اس نئے سافٹ ویئر سے پی آئی اے کو سیبر کے مقابلے میں 50 فیصد کم ادائیگی کرنا ہوگی۔11 ستمبر 2018ء کو پی آئی اے انتظامیہ نے رات 12 بجے کے بعد کٹ اوور کا پروگرام بنایا۔ اس سلسلے میں ہیڈ آفس میں ایک ہیلپ ڈیسک بھی قائم کی گئی، جس میں ترکی کے سافٹ ویئر انجینئرز کو استعمال کرنا تھا۔ انتظامیہ کا خیال تھا کہ یہ ہیلپ ڈیسک کٹ اوور کے 2 یا 3 روز بعد ختم کر دی جائے گی اور جتنے بھی ایشوز سامنے آئیں گے، انہیں دو یا تین دنوں میں حل کرلیا جائے گا۔ تاہم ایسا نہ ہوا۔ ہٹ اٹ کے لاگو ہونے کے بعد سے اب تک اس نئے ہیلپ ڈیسک کو نت نئے مسائل کا سامنا ہے۔ پہلے ڈومیسٹک اسٹیشنز سے مسائل سامنے آرہے تھے۔ لیکن بعد میں یہ سلسلہ دنیا بھر کے ہوائی اڈوں اور آن لائن و آف لائن اسٹیشنز تک جا پہنچا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی دنوں میں پی آئی اے کے ایک ذمہ دار افسر فرحان سمیع اللہ کی جانب سے ہٹ اٹ سسٹم پر کیے گئے اعتراضات کو محض اس لئے نظر انداز کر دیا گیا کہ انہیں شاید سیبر کمپنی کی جانب سے کوئی پرکشش افرز مل رہی ہوں۔ معلوم ہوا ہے کہ فرحان سمیع اللہ نے سیبر کو چھوڑ کر ہٹ اٹ کو اپنانے کے انتظامی فیصلے کی مخالفت کی تھی اور اعلیٰ حکام کو اس کی وجوہات بھی بتائی تھیں۔ انتظامیہ کو بھیجی گئی ای میل میں فرحان سمیع اللہ نے لکھا تھا کہ ترک کمپنی کا یہ سافٹ ویئر پی آئی اے کے اسٹیشنز کیلئے موزوں نہیں۔ یہ سافٹ ویئر اس معیار کا نہیں کہ پی آئی اے کے دنیا بھر میں پھیلے نیٹ ورک کو سنبھال سکے۔ انہوں نے اپنی ای میل میں لکھا کہ ہٹ اٹ سسٹم بیٹھ جانے پر انہیں ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے، بلکہ اس سے متعلق فیصلہ کرنے سے قبل نظر ثانی کی جائے۔
’’امت‘‘ کو ایئر لائن ذرائع نے بتایا کہ کٹ اوور کے بعد آنے والے مسائل سے نمٹنے کی ترکی کے سافٹ ویئر انجینئرز صلاحیت رکھتے تھے۔ تاہم انہیں اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ سابقہ نظام سے حاصل ہونے والا ڈیٹا ان کیلئے درد سر بن جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ پی آئی اے کراچی بکنگ آفس سمیت ملک کے تمام ہوائی اڈوں میں قائم بکنگ دفاتر سے ملٹی سیکٹر ٹکٹنگ کے مسائل سامنے آرہے ہیں، جو ترکی کے انجینئرز بھی دور نہیں کر پارہے۔ ان ذرائع کے مطابق سیبر کمپنی کے ذریعے کی گئی بکنگ اس نئے نظام کے تحت آپریٹ نہیں ہورہیں، جس کی وجہ سے سب سے زیادہ مسائل کا سامنا ایجنٹوں کو ہے۔ مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر نے بتایا کہ اگلے دو سے تین ماہ تک یہ مسائل حل ہونے والے نہیں، کیونکہ وہ تمام بکنگس جو سیبر نظام سے ہٹ اٹ پر منتقل ہوئی تھیں، ان کا ریکارڈ نہیں ملتا اور سسٹم ٹکٹ ویلیو میں رقم کو ظاہر نہیں کرتا۔ سب سے زیادہ پریشانی 6 فریڈم سسٹم میں آرہی ہے۔ یہ فریڈم سسٹم ایک مسافر کی جانب سے دبئی سے کراچی اور گوادر۔ پھر گوادر سے کراچی اور دبئی کی بکنگ کرنے پر وجود میں آتا ہے۔ اس میں 6 ٹکٹس پر پی آئی اے کو دو لاکھ روپے سے زائد کا ریونیو حاصل ہوتا ہے۔ تاہم ان بکنگ کی ری ٹکٹنگ پر سسٹم رقم کی نشاندہی نہیں کرتا۔ اسی طرح ایک دوسرے مسافر جس نے دبئی سے کراچی اور ٹورنٹو، پھر ٹورنٹو سے کراچی اور دبئی کیلئے بکنگ کرائی ہوتی ہے، وہ اپنا شیڈول تبدیل ہونے کے بعد ری ٹکٹنگ پر ایجنٹوں اور بکنگ دفاتر کے چکر لگاتا رہتا ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ پی آئی اے دفاتر میں موجود عملہ تربیت یافتہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں، بلکہ ایجنٹوں کی جانب سے پریشانی دور نہ ہونے پر دوسری فضائی کمپنیوں پر پی آئی اے کے مسافروں کی منتقلی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایئر لائن ذرائع نے بتایا کہ نئے نظام کے آنے پر پی آئی اے انتظامیہ کی جانب سے بڑے بڑے دعوے کیے گئے تھے۔ ان میں محض یہ دعویٰ ہی سچا ثابت ہوا کہ ایئر لائن کو سیبر کے مقابلے میں ہٹ اٹ کو کم ادائیگی کرنا پڑے گی۔
11 نومبر کو پی آئی اے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ پی آئی اے آج سے نئے جدید ترین سسٹم کا استعمال شروع کر رہی ہے۔ یہ جدید سسٹم پی آئی اے نے ایوی ایشن انڈسٹری کی صف اول کی ترک آئی ٹی کمپنی ہٹ اٹ کمپیوٹر سروسز سے حاصل کیا ہے۔ ہٹ اٹ کا نیا کمپیوٹر سسٹم کرین مکمل طور پر فعال ہے۔ چیئرمین نے کہا کہ سسٹم کی تبدیلی وقت کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ نئے سسٹم کی سب سے نمایاں خوبی یہ ہے ویب سائٹ سے آن لائن بکنگ کی سہولت کو آسان تر بنا دیا گیا ہے۔ جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سسٹم کی تبدیلی سے پی آئی اے کی ٹیکنیکل صلاحیت کی استعداد اور کارکردگی میں نمایاں اضافہ ہو گا۔ تاہم مذکورہ دعووں کی اب قلعی کھل گئی ہے۔ کیونکہ پی آئی اے سے منسلک دنیا بھر کے اسٹیشنز ہٹ اٹ آپریشن میں ناکام ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ 11 ستمبر 2018ء کو ہٹ اٹ کے سافٹ ویئر کرین کو ملک بھر کی 26 لوکیشنز سے منسلک کیا گیا، جن میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، ملتان، کوئٹہ، بہالپور، چترال، دادو، دالبدین، ڈیر ہ غازی خان، فیصل آباد، گلگت، گوادر، جیکب آباد، کنڈواڑی، موئن جودڑو، پنجگور، پسنی، رحیم یا ر خان، سیدو شریف، سیالکوٹ، اسکردو، سیوھن، سکھر اور تربت شامل ہیں۔ اسی طرح مذکورہ نظام کے ذریعے 33 ممالک کے 48 ہوائی اڈوں کو منسلک کیا گیا، جن میں یوکے کے 5، متحدہ عرب امارات کے 4، سعودی عرب کے 4، ازبکستان کے 3، امریکہ، اٹلی اور انڈیا کے دو ہوائی اڈے شامل ہیں۔ جبکہ افغانستان، اردن، کویت، ملائیشیا، نیپال، نیدرلینڈ، ناروے، اومان، فلپائن، قطر، روس، سنگا پور، اسپین، سری لنکا، تھائی لینڈ اور ترکی کے ہوائی اڈوں پر بھی پی آئی اے نیٹ ورک کو پہلے ای آر پی اور پھر ہٹ اٹ سے منسلک کیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ کراچی، اسلام آباد، لاہور، پشاور، فیصل آباد، ملتان اور کوئٹہ کے 51 آن لائن اور آف لائن اسٹیشنز کو بھی ہٹ اٹ سے منسلک کیا گیا۔ کراچی میں 19 آن لائن اور 2 آف لائن اسٹیشن، اسلام آباد میں 2 آن لائن اور 7 آف لائن اسٹیشن، لاہور میں 3 آن لائن اور 3 آف لائن، پشاور کے 4 آف لائن اسٹیشن، فیصل آباد کے 4 آف لائن اسٹیشن، ملتان کے 2 آف لائن اسٹیشن اور کوئٹہ کے 5 آف لائن اسٹیشن سے مسلسل آپریشن کی ناکامی کی شکایات موصول ہو رہی ہیں، جس پر پی آئی اے انتظامیہ اور خود ہٹ اٹ کے انجینئرز پریشان ہیں۔ پی آئی اے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ہٹ اٹ کی ناکامی پر قابو پانے کیلئے جی ایم ریونیو مینجمنٹ نے ایک واٹس ایپ گروپ بھی بنا رکھا ہے، جس میں یومیہ سینکڑوں کی تعداد میں شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں، جو نہ صرف پاکستان سے بلکہ تمام غیر ملکی اسٹیشنز سے بھی کی جا رہی ہیں۔ دو روز قبل پی آئی اے کے کراچی بکنگ آفس میں آنے والے مسائل کے حل کیلئے ہیڈ آفس سے دو ڈائریکٹرز ترکی کے انجینئرز کو اپنے ہمراہ لئے پہنچے تو وہاں موجود اسٹاف نے شکایات کے انبار لگادیئے۔ کئی گھنٹے تک انجینئرز کی ٹیم مسائل سے نمٹنے کی کوشش کرتی رہی، لیکن کوئی حل بتائے بغیر ہی واپس چلی گئی۔ بکنگ آفس کے ایک ریزرویشن افسر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اب یہاں سے مینول یا دیسی طریقوں کو استعمال کرکے ہی مسافروں کو پریشانی سے بچایا جارہا ہے، جبکہ ہٹ اٹ سے تو صرف فریش بکنگ کا کام ہی لیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب ’’امت‘‘ کو پی آئی اے ذرائع نے بتایا کہ 2 ارب 20 کروڑ 50 لاکھ روپے سے خریدا گیا ای آر پی نظام بھی دو سال گزرنے کے باوجود اب تک اپنی درست حالت میں نافذالعمل نہیں ہوسکا ہے، جس سے مسائل کے حل میں پی آئی اے اسٹاف کو مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اس سلسلے میں تفصیلات معلوم کی گئیں تو پتا چلا کہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی میں بری طرح ناکام ہونے والے ای آر پی سسٹم کی پی آئی اے انتظامیہ نے مارکیٹ ریٹ سے مہنگے داموں خریداری کی تھی، تاکہ پی آئی اے میں رائج آن لائن نظام کو پیپر فری بنایا جاسکے اور تمام رائج سیٹ اپ ایک کلک پر تمام تر تفصیلات فراہم کرسکیں۔ تاہم ذرائع کے مطابق پی آئی اے کو پیپر فری کرنے کیلئے لایا جانے والا یہ نظام انتظامیہ کی غفلت کے باعث مکمل طور پر فعال نہیں ہوسکا۔ معلوم ہوا ہے کہ پی آئی اے نے سب سے پہلے شعبہ فنانس، ایچ آر اور سپلائی چین کا نیا سافٹ ویئر ای آر پی میں انضمام کیلئے اوریکل بیسڈ سافٹ ویئر کیلئے نومبر 2015ء میں معاہدہ کیا ہے اور 19 جنوری 2016ء سے اس نظام کے تحت ڈیٹا گیدرنگ کا کام شروع کیا گیا۔ اوریکل کے پاکستان میں وینڈر انفوٹیک نے ہیومین ریسورس، سپلائی چین اور فنانس کے20 سے زائد ذیلی شعبہ جات کے انضمام کیلئے پی آئی اے ٹریننگ سینٹر میں تربیت دی۔ ابتدائی طور پر انتظامیہ نے شعبہ فنانس اور ایچ آر کے مختلف ہیڈز کا ڈیٹا اکٹھا کیا اور ڈیٹا گیدرنگ کے بعد سولوشن ڈیزائن کرکے یونیورسل سولوشن کے طور پر کام کرنے کے دعوے کئے اور پہلے سے رائج لیگیسی نظام تقریباً ختم کردیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ چیف آف آئی ٹی کے بجائے ڈائریکٹر فنانس کو ای آر پی نظام کیلئے سربراہ مقررکیا گیا، جن کے پاس آئی ٹی کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ آئی ٹی کے بجائے شعبہ فنانس کے کاشف منیر کو اس پورے منصوبے کا کوآرڈینٹر مقرر کیا گیا۔ پی آئی اے انتظامیہ نے ابتدا میں دعویٰ کیا کہ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کو 8 ماہ کا ٹارگٹ دیا گیا ہے اور ای آر پی سسٹم پر 2016ء کی سالانہ رپورٹ نکالی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ سافٹ ویئر سے بھی مذکورہ رپورٹ حاصل کی جائے گی۔ ذرائع نے بتایاکہ نظام کے لاگو ہونے پر یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ پی آئی اے میں برسوں سے جاری کرپشن کے خاتمے میں مدد ملے گی اور کوئی بھی افسر یا ملازم ریکارڈ میں ردوبدل کرسکے گا نہ ہی پرانی تاریخوں میں پرچیز آرڈر بنائے جاسکیں گے۔ اس نظام کے تحت ایک ’’کلک‘‘ پر تمام ڈیٹا بیک وقت کئی مقامات پر دیکھا جاسکے گا، لیکن جو اب محض خواب ثابت ہوا ہے۔
ایئر لائن ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں کنسلٹنٹس اور ای آر پی ٹرینرز تعینات کیے گئے۔ اس سلسلے میں 4 ٹیمیں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بھرتی کی گئیں۔ کراچی اور لاہور میں ایک ایک کنسلٹنٹ بھرتی کیا گیا، ساتھ ہی 4 پروجیکٹ مینجرز بھرتی کیے گئے، اور کہا گیا کہ ان کو ای آر پی عملدرآمد کا تجربہ ہے۔ 4 پروجیکٹ مینجمنٹ ٹیمیں تشکیل دی گئیں، جو ایسے افراد پر مشتمل تھیں، جن کے پاس ای آر پی پروجیکٹ پر کام کا تجربہ تھا۔ اسی طرح 5،7 اور 10 سال کا ٹیکینکل سلوشن کا تجربہ رکھنے والے 4 پروجیکٹ ٹیکنیکل لیڈ بھی بھرتی کیے گئے۔ ’’امت‘‘ کو تحقیقات پر معلوم ہوا ہے کہ اسی ٹریننگ کیلئے کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے اسٹاف بھی فراہم کیا گیا، جس کیلئے کراچی، اسلام آباد اور لاہور سے 5 مراکز اور اسٹاف ای آر پی کیلئے تعینات کئے گئے تھے۔ ’’امت‘‘ کو تحقیقات پر ای آر پی یوزرز کے بارے میں معلوم ہوا کہ ای آر پی کنسلٹنٹس نے پی آئی اے کے سینئر مینجمنٹ کے 70 افسران کو تربیت دی، تاکہ وہ رپورٹ، ٹرانزیکشن ریویو اور اس کی منظوری، محدود ٹرانزیکشن کا اندراج اور اس میں تبدیلی کرسکیں۔ اسی طرح فنانس کے 40، ایچ آر اینڈ ایڈمنسٹریشن کے 25، پروکیورمنٹ اینڈ لاجسٹک کے 15، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے 20 اور دیگر شعبہ جات کے 15 افسران کو سسٹم تک رسائی بطور ماسٹر ٹرینر تربیت دی گئی۔ معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ ماسٹر ٹرینرز اور اعلیٰ حکام نے ای آر پی سسٹم کے تحت فنانس کے 300، ایچ آر اینڈ ایڈمن کے 250، پروکیورمنٹ اینڈ لاجسٹک کے 150، آن لائن اینڈ آف لائن اسٹیشن کے 300، جبکہ دیگر شعبوں کے 50 ملازمین کو سسٹم آپریٹ کرنے کی تربیت دینا تھی۔ تاہم پی آئی اے کے جنرل منیجرز سے گروپ 5 کے ملازمین کو سسٹم سے مکمل آگاہی ہی نہیں ہے، جس کی وجہ سے آپریشن میں خلل آرہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی کہ ایسے افسران کو تربیت دی گئی جنہوں نے کبھی آئی ٹی سے متعلق کوئی
تربیت نہیں لی تھی اور محض الائونسز کیلئے انہیں ای آر پی سیٹ اپ سے منسلک کیا گیا، تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ نوازا جا سکے۔
ایئر لائن ذرائع نے انکشاف کیا کہ پی آئی اے میں رائج نظام کو ای آر پی سے منسلک کرنے میں بھی انتظامیہ کو اب تک کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔ پی آئی اے میں تین اقسام کے نظام رائج ہیں۔ ان میں ہاسٹڈ سسٹم، اکوائرڈ سسٹم اور ان ہائوس ڈویلپمنٹ سسٹم شامل ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ ہاسٹڈ سسٹم کے تحت 14 ذیلی نظام کام کرتے ہیں، جن میں ریزرویشن سسٹم، پیسنجر چیک ان سسٹم، ریونیو مینجمنٹ سسٹم، شیڈول مینجمنٹ سسٹم، فلائٹ آپریشن سسٹم، کارگو ریونیو مینجمنٹ، ریونیو انٹیگریٹی مینجمنٹ سسٹم، فریکیوئنٹ فلائر سسٹم، ای ٹکٹنگ، ویب ٹکٹنگ، ایس آئی ٹی اے شیئرڈ کارگو، یو ایل ڈی مینجمنٹ سسٹم، ٹریول انفارمیشن سسٹم اور بیگج ٹریسنگ سسٹم شامل ہیں۔ اسی طرح ایکوائرڈ سسٹم میں پیسنجر ریونیو اکائونٹنگ سسٹم، ایئر پرائسنگ سسٹم، کریو شیڈولنگ سسٹم، اے پی آئی ایس سسٹم اور کیو مینجمنٹ سسٹم شامل ہیں۔ جبکہ ان ہائوس ڈویلپمنٹ سسٹم میں پیرول، انکم ٹیکس/ پروویڈنٹ فنڈ سسٹم، ہیومن ریسورس سسٹم، لیو اینڈ پیسج سسٹم، جنرل لیجر سسٹم، بجٹ/ ایجنٹ لیجر سسٹم، فلائٹ لاگ سسٹم، یونیفارم سسٹم، پیمس (ایئر کرافٹ مینٹی نینس )، پوس (آن لائن آرڈرز)، کارگو ریونیو، ٹریفک لوڈ سمری، میل ریونیو، انٹر لائن بلنگ، اٹینڈنس مانیٹرنگ سسٹم، اسٹینڈ بائی اینڈ ویٹ لسٹ، پیسنجر لسٹ، فلائٹ اسٹیٹس بورڈ، ویب بیسڈ پیسنجر انفارمیشن سسٹم، کارگو مینجمنٹ سسٹم، کسٹمر کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم، فائل مینجمنٹ سسٹم، فلائٹ فرمنگ سسٹم، نیو اسپیڈیکس سسٹم، ریسپ مینجمنٹ سسٹم، میڈیکل یونٹس آٹومیشن سسٹم، بیگج ری کنسیلیشن سسٹم، ہیومن ریسورسز ریکارڈ سسٹم، فری پاک سسٹم، فیول مینجمنٹ اینڈ اینالائسس سسٹم، روٹ پرفارمنس اینڈ پروفٹ ایبلیٹی سسٹم، ٹریفک پرفارمنس سسٹم، ٹریفک ٹرینڈ بلیٹنگ سسٹم، انٹر نیشنل مارکیٹ شیئر اینالائسس سسٹم، ڈومیسٹک مارکیٹ کمپیٹیشن اینالائسس سسٹم اور انٹرنیشنل مارکیٹ افیئرز سسٹم کو بھی ای آرپی سے منسلک کرنے کے منصوبے تھے، جس پر دو سال سے کام جاری ہے۔ اسی طرح ایئر لائن انفارمیشن منیجمنٹ سسٹم (ایمز) کا بھی ای آر پی میں انضمام ہونا تھا، جس پر مکمل طور پرعملدرآمد نہیں کیا جاسکا۔ اسی طرح روٹ فرمارمنس اور پروفٹ ابیلٹی سسٹم میں فیول منیجمنٹ اینڈ اینالائسس سسٹم، ٹریفک پرفارمننس سسٹم، پیسنجرز اینڈ فریٹ سسٹم اور پیسنجرز ریونیو کے علاوہ انجینئرنگ کاسٹ، کاک پٹ/ کیبن کریو/ سلپ/ گرائونڈ ٹرانسپورٹیشن اینڈ ہوٹلز کا اندراج بھی ای آر پی میں نہیں کیا جاسکا ہے۔ دوسری جانب پروازوں کے روٹس کے منافع اور نقصان کو ظاہر کرنے والی ایم آئی ایس رپورٹس کو بھی ای آر پی سے بھی منسلک کرنا تھا، جس میں سیکٹر وائس، فلائٹ وائس، روٹس وائس، ریجن وائس، ایئر کرافٹ ٹائپس اور ٹیل وائس اندراج کرنا تھا۔ پی آئی اے انتظامیہ کے منصوبے میں ملٹی کرنسی، ملٹی لینگویجز، ملٹی لیگل کمپنیز، ملٹیپل ٹیکس اسٹرکچر، لیگیسی سسٹم کی ٹرانزیکشن اور بیلنس کو اسٹور کرنا، یوزرز ڈیفالٹ، یوزرز ڈیفائنڈ اسکیم، ملٹیپل ڈیٹ فارمٹ، شیڈولنگ آف جابز فار ان اٹینڈنٹ آپریشن اور ماسٹر فائل ڈیٹا کو بھی ای آر پی میں ضم نہیں کیا جاسکا ہے۔ ’’امت‘‘ کو پی آئی اے ذرائع نے بتا یا کہ ای آر پی اور ہٹ اٹ نظام کے نہ چلنے سے اب تک ایئر لائن کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے، جس کی تلافی بھی ممکن نہیں ہے۔ ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More