گجرات میں22گز لمبی قبر حضرت نعماطوس کی بتائی جاتی ہے

0

پہلی قسط
احمد خلیل جازم
گجرات میں جلال پور جٹاں روڈ سے ایک لنک روڈ کڑیاں والا کی طرف نکلتا ہے اور اسی سڑک پر پچیس کلومیٹر دور چک کمالا سے دائیں جانب کوٹلی کوہالہ روڈ پر جسو سرائے نامی قصبے کی طرف سڑک نکلتی ہے۔ اس چھوٹے سے قصبے میں حضرت نعماطوسؑ کا مزار واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ اللہ کے نبی اور حضرت ابراہیمؑ کی اولاد میں سے ہیں۔ مقامی لوگ آپ کا نام نعمت طوس بھی لیتے ہیں۔ یہ مزار بائیس گز لمبا ہے اور اس کی چوڑائی بھی اچھی خاصی ہے۔ مزار کے چاروں جانب چار دیواری تعمیر کی گئی ہے اور یہ گھنے درختوں کے درمیان واقع ہے۔ مزار پر خوبصورت سفید ٹائلیں لگی ہوئی ہیں اور بیرونی جانب سنگ مرمر لگایا گیا ہے۔ جسو سرائے میں واقع اس جگہ کو ڈوبہ شریف کہتے ہیں۔ ڈوبہ شریف کیوں کہتے ہیں؟ اس پر مقامی لوگوںکا کہنا تھا کہ ’’یہاں مزار کے چاروں جانب سے بارشوں کا پانی گزرتا رہتا اور برسات ختم ہونے کے بعد بھی کھڑا رہتا تھا۔ لیکن اب یہاں سڑکیں تعمیر ہوگئی ہیں، جس کی وجہ سے پانی کی آمد رک گئی ہے۔ اس کے باوجود بارش کے موسم میں پانی مزار کے چاروں جانب کھڑا ہوجاتا ہے اور جب خشک ہوتا ہے تو سال کے باقی مہینوں میں جو فصل بھی اگائی جائے اسے پانی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ کیونکہ زیر زمین بہت پانی موجود ہوتا ہے۔ ایک طرف جہاں جسو سرائے کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ قدیمی قصبہ ہے، دوسری طرف اس کے مخالف سمت میں قدیم ترین قصبے کڑیاں والا سے ہی ایک سڑک اعوان شریف کو نکلتی ہے جہاں ایک اور قدیمی قصبے ’’مل‘‘ میں ایک اور پیغمبر کی قبر بتائی جاتی ہے۔ یہ قصبات اگرچہ ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر ہیں، لیکن اس قدر بھول بھلیوں پر مشتمل ہیں کہ اس علاقے کا کوئی واقف حال آپ کے ساتھ نہ ہو، تو آپ سارا دن گھومتے رہیں گے لیکن منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔
’’امت‘‘ کی ٹیم جب ان مزارات کی طرف روانہ ہوئی تو علاقے کا کوئی واقف حال ہمارے ساتھ موجود نہ تھا۔ چنانچہ وہ سب کچھ بھگتنا پڑا جس کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں مزارات کے نام لوگوں نے اپنے طور پر رکھ دیئے ہیں، جیسے حضرت نعماطوسؑ کے مزار کو ’’ڈوبا شریف والے‘‘ کہا جاتا ہے۔ حالانکہ ڈوباشریف کوئی قصبہ نہیں، بلکہ جسو سرائے میں ہی واقع ایک جگہ کا نام ہے۔ جس وقت ہم جسو سرائے پہنچے تو اس وقت بھی مزار کے سامنے کچھ لوگ مونجھی کی فصل کاٹ کر اس کی صفائی کرنے میں مصروف تھے۔ یہ علاقہ پنجاب کے دیگر قصبوں کی نسبت زیادہ پس ماندہ دکھائی دیتا ہے اور یہاں لوگوں کے روزگار کا دارومدار زیادہ تر کاشت کاری پر ہے۔ اس پس ماندہ قصبے میں حضرت نعماطوسؑ کا مزار ایک الگ جہاں کی سیر کراتا ہے۔ جسو سرائے سے متصل یہ مزار کھلی زمینوں پر واقع ہے اور ان زمینوں کے صرف اسی ٹکڑے پر درجنوں گھنے درخت ہیں۔ جبکہ ایک قدیم بوہڑ نما درخت بھی مزار کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اسی درخت کے ساتھ وہ قدیمی پانی کا نلکا بھی موجود ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا پانی سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا ہوتا ہے اور پورا گائوں اس سے فیضیاب ہوتا ہے۔ اس نلکے اور متصل کنویں کے پانی کی تاثیر ایسی بتائی جاتی ہے کہ اس پانی سے غسل کرنے والوں کے تمام جلدی امراض ختم ہوجاتے ہیں۔ مزار پر اس وقت کوئی موجود نہ تھا۔ ایک عورت مزار کی پائنتی کی جانب خاموش بیٹھی زیر لب کچھ پڑھ رہی تھی، جو ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے اٹھ کر نہ جانے کہاں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد ارشد نامی شخص آیا۔ اس سے مزار کے متولی کا پوچھا تو اس کا کہنا تھا کہ ’’اس مزار کے پہلے باقاعدہ متولی بابا فرمان تھے۔ اب محمد بخش یہاںکے متولی ہیں۔ یہاں دور دراز سے لوگ آتے ہیں اور منت مراد حاصل کرتے ہیں‘‘۔ محمد بخش اس وقت موجود نہ تھا۔ وہ جسو سرائے میں کسی نکاح کی تقریب میں شامل تھا۔ اسے بلوایا گیا اور اس سے صاحب مزار کے حوالے سے گفتگو کی۔ محمد بخش کا دعویٰ تھا کہ ’’قبر مبارکہ کی نشان دہی حافظ شمس الدین آف گلیانہ نے کی، جبکہ بعد ازاں صاحب مزار کی تصدیق، حضرت گوہرالدین اور قاضی سلطان محمود نے بھی کی۔ حضرت گوہرالدین نے مزار کی تعمیر شروع کرائی۔ صاحب مزار کا نام نعماطوسؑ ہے، نعمت طوس نہیں۔ اب مزار کی دیکھ بھال خواجہ گوہرالدین کے پوتے میاں ارشد اور کاشف دونوں بھائی کرتے ہیں۔ لیکن مزار کی اپنی ایک کمیٹی بنی ہوئی ہے، جس نے تمام معاملات میرے سپرد کر رکھے ہیں۔ مزار کی حالیہ تعمیر 1336ھ، شوال کے مہینے میں فرمان علی مرحوم نے شروع کی۔ عرس مبارک خواجہ گوہرالدین کے عرس کے دسویں دن منعقد ہوتا ہے۔ یہاں قاضی سلطان محمود صاحب نے بھی فیض حاصل کیا۔ جب قبر کی نشان دہی کی گئی تو اس وقت یہاں فقط ایک مٹی کی ڈھیری تھی۔ بعد میں قاضی گوہرالدین نے یہاں کھدائی شروع کرائی۔ جب چھ سات فٹ نیچے زمین کھودی گئی تو پختہ قبر ظاہر ہوگئی، چنانچہ اسی قبر مبارکہ پر مزار تعمیر کرایا گیا‘‘۔ صاحب مزار کی کرامات کے حوالے سے متولی کا دعویٰ تھا ’’یہاں کے پانی میں بہت تاثیر ہے۔ یہاں آکر تین اتوار نہانے والے بے اولاد جوڑوںکو اللہ پاک کرم کرکے اولاد کی نعمت سے سرفراز فرماتے ہیں۔ جبکہ اسی پانی سے کسی قسم کی جلد ی بیماری، خارش وغیرہ دور ہوجاتی ہے۔ یہاں تین اتوار آکر نہانا پڑتا ہے اور منت مانگی جاتی ہے۔ جب منت پوری ہوجاتی ہے تو مرادیں پانے والے لوگ میٹھی روٹیاں پکا کر لاتے اور تقسیم کرتے ہیں۔ بعض لوگ گھروں سے کچھ میٹھا پکا کر لاتے ہیں اور یہاں تقسیم کرتے ہیں۔ میٹھے کے علاوہ اور کوئی چیز تقسیم کرنے کی ممانعت ہے۔ ہاں صاحب مزار کو قرآن پاک کی تلاوت اور نماز کی پابندی سے خوشی ہوتی ہے، اسی لیے جن لوگوں کی مرادیں پوری ہوتی ہیں وہ یہاں ختم قرآن کراتے ہیں اور پھر میٹھا تقسیم کرتے ہیں‘‘۔ محمد بخش نے دعوئوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’’آپؑ کے ظہور کے بھی چند واقعات ہیں۔ گجرات کے ایک صاحب میاں اختر علی اویسی ہیں، جو اب بھی زندہ ہیں۔ ان کی اکثرآپؑ سے ملاقات رہتی ہے۔ یہ سلسلہ اس طرح ہے کہ جسے صاحب مزار ملتے ہیں، وہ آپؑ سے ملاقات کی تفصیلات نہیں بتاتا۔ میں خود دو بار زیارت کر چکا ہوں لیکن آپ کو بتا نہیں سکتا۔ میں بنیادی طور پر پینٹر ہوں۔ مستری راج کا کام بھی جانتا ہوں۔ یہاں خادم کی حیثیت سے کام کرنے کی ڈیوٹی میری لگائی گئی ہے۔ میں ایک ملاقات کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا۔ جب میں یہاں آکر خدمت کرنے لگا تو لوگ مجھ سے پوچھتے کہ تم یہاں آکر کیوں بیٹھے ہو؟ کیا واقعی آپؑ کا قد کاٹھ اتنا ہی لمبا ہے؟ مجھے بھی معلوم نہ تھا کہ آپ کا قد اتنا ہی لمبا ہے، جتنی لمبی قبر ہے یا پھر ویسے ہی اتنی لمبی قبر بنائی گئی ہے اور صاحب مزار کا قد کاٹھ عام لوگوں جتنا ہی ہے۔ پھر میں نے تسلسل سے صاحب مزار سے گزارش شروع کر دی کہ مہربانی فرمائیں اور ظہور فرما کر میری داد رسی فرمائیں۔ کیونکہ میرے پاس کوئی حوالہ یا آنکھوں دیکھی بات نہ تھی کہ میں لوگوں کو بتا سکتا کہ واقعی صاحب مزار اتنے قدکاٹھ کے حامل ہیں۔ چنانچہ ایک روز میں نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد متصل کمرے میں لیٹا ہوا تھا۔ ابھی میری آنکھ نہیں لگی تھی کہ آپؑ کا ظہور ہوا، جتنی لمبی قبر تھی اتنا ہی لمبا پلنگ بچھا ہوا تھا، جس پر آپؑ محو استراحت تھے۔ سفید ریش مبارکہ اور سفید لباس زیب تن تھا۔ فرمایا کہ دیکھ لو میرا قد کاٹھ۔ میں نے دیکھا کہ آپؑ کا جسم اتنا ہی لمبا تھا جتنی قبر مبارکہ ہے۔ آپؑ کے چہرہ مبارکہ کی کوئی تشبیہ دینے سے میں قاصر ہوں کہ وہ کس قدر اجلا اور کتنا خوبصورت تھا، بس اس سے زیادہ میں بتانے سے قاصر ہوں‘‘۔
صاحب مزار کی حاضری کے لیے کہاں کہاں سے لوگ آتے ہیں؟ اس پر محمد بخش نے بتایا ’’پورے پاکستان سے لوگ یہاں حاضر ہوکر مرادیں پاتے ہیں، بلکہ دیگر ممالک سے بھی لوگ آتے ہیں۔ اکثر لوگ پنجاب اور کراچی سے آتے ہیں، لیکن بعض اوقات ایسی جگہوں سے بھی لوگوں کی آمد ہوتی ہے جن کا ہم نے نام ہی نہیں سنا ہوتا۔ مجھے یہاں سات برس ہوگئے ہیں۔ پہلے فرمان علی متولی تیس برس رہے۔ لیکن بعد میں جو متولی بھی آیا اسے صاحب مزار نے ٹکنے نہ دیا۔ پانچ سات متولی آئے لیکن وہ زیادہ دن یہاں نہ رہ سکے‘‘۔ یہاں مائی گوہراں اور بابا لعل کی اکٹھی قبریں بھی موجود ہیں جو خادموں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ دونوں کون تھے؟ مائی گوہراں کے حوالے سے محمد بخش نے جو دعوے کئے، وہ بھی حیران کن تھے۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More