امت رپورٹ
پاکستان کو مدینے جیسی ریاست بنانے کا دعویٰ کرنے والے وزیر اعظم عمران خان کی وفاقی حکومت نے پنجاب بھر کے میئرز کے فنڈز صرف اس بنیاد پر روک لئے ہیں کہ ان میں سے بیشتر کا تعلق مسلم لیگ ’’ن‘‘ سے ہے۔ جبکہ ایک ایسے میئر وسیم اختر کو 10 ارب روپے جاری کئے گئے، جو خود پی ٹی آئی کے وزیر فیصل واوڈا کے بقول اربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں۔
میئر کراچی وسیم اختر کو یہ بھاری فنڈز گزشتہ ماہ فراہم کئے گئے۔ جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس رقم سے سخی حسن چورنگی، فائیو اسٹار چورنگی اور کے ڈی اے چورنگی کے فلائی اوورز کی تعمیر سمیت دیگر پروجیکٹس تعمیر کئے جائیں گے۔ جبکہ دو ارب روپے فائر بریگیڈ کے لئے ساز و سامان خریدنے پر خرچ ہوں گے۔
ایک عرصے تک ایم کیو ایم کی دہشت گردی کے خلاف کھڑے رہنے والے پی ٹی آئی کراچی کے ایک عہدیدار نے وفاقی حکومت کے اس اقدام پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’زیادہ پرانی بات نہیں، خود ہماری پارٹی کے وزیر فیصل واوڈا نے دستاویزی شواہد کے ساتھ میئر وسیم اختر کی کرپشن کو بے نقاب کیا تھا۔ جبکہ ایم کیو ایم کے سابق کنوینر فاروق ستار بھی وسیم اختر پر ترقیاتی فنڈز کے اربوں روپے کھا جانے کا الزام لگا چکے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت کی جانب سے میئر کراچی کو مزید 10 ارب روپے جاری کرنے سے مجھ سمیت پی ٹی آئی کراچی کے دیگر کئی نظریاتی عہدیداران اور کارکنان مایوس ہیں‘‘۔ عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ترقیاتی فنڈز ہر میئر کا استحقاق ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ جسے سرکاری خزانے سے اربوں روپے دیئے جا رہے ہیں، کرپشن کے حوالے سے اس کا ٹریک ریکارڈ کیا ہے۔ اور یہ بات کیسے یقینی بنائی جا سکتی ہے کہ ماضی کی طرح اربوں روپے کے نئے فنڈز کا بیشتر حصہ بھی میئر کراچی اپنی جیب میں نہیں ڈال لیں گے۔ عہدیدار کے بقول سانحہ 12 مئی کے متاثرین میں پی ٹی آئی کے متعدد کارکنان بھی شامل ہیں۔ جب یہ قتل و غارت ہوئی تھی تو وسیم اختر مشیر داخلہ سندھ تھے۔
میئر کراچی وسیم اختر یہ رقم دینے پر وزیر اعظم عمران خان کا ذاتی طور پر شکریہ ادا کر چکے ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کے لئے جو شرائط رکھیں، ان میں سے ایک میئر کراچی کو فنڈز کا اجرا بھی تھا۔ اگر حکومتی پالیسی کے تحت یہ فنڈز جاری کئے جاتے تو پھر نون لیگ سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے میئرز اور ڈسٹرکٹ چیئرمینوں کو محروم نہ رکھا جاتا۔ اس حوالے سے جب لاہور کے ایک ڈپٹی میئر اور پنجاب کے چند ڈسٹرکٹ چیئرمینوں سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے بالخصوص نون لیگ کے میئرز، ڈپٹی میئرز اور ڈسٹرکٹ چیئرمینوں کو کنٹرول کرنے کے لئے پنجاب کے سینئر وزیر بلدیات علیم خان کو ٹاسک دے رکھا ہے۔ جبکہ میئر لاہور اس وقت بالکل بے اختیار ہیں۔ ایک ڈسٹرکٹ چیئرمین نے بتایا کہ بلدیاتی نظام سے متعلق پی ٹی آئی حکومت کی پالیسی کے نتیجے میں لاہور کی 274 یوسیز میں کام ٹھپ پڑا ہے۔ ان میں سے ہر ایک یو سی میں تقریباً 20 سے 25 ہزار رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔ جبکہ کئی یو سیز کی آبادی تو چالیس سے پچاس ہزار تک ہے۔ تاہم حکومت کی جانب سے فنڈز جاری نہ کرنے کے سبب ان یو سیز میں اسٹریٹ لائٹس، سڑکوں کی مرمت اور سیوریج کا سسٹم بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ یہی صورت حال پنجاب کے دیگر اضلاع اور ہزاروں یو سیز کی ہے۔ جہاں اب سڑکوں کی چمک ماند پڑتی جا رہی ہے۔ سیوریج کا سسٹم چوک ہو رہا ہے۔ اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔
اس سلسلے میں جب میئر لاہور کرنل (ر) مبشر جاوید سے ’’امت‘‘ نے رابطہ کیا تو انہوں نے شکوے شکایات کا پورا دفتر کھول دیا۔ مبشر جاوید کا کہنا تھا کہ ’’پی ٹی آئی حکومت کے آنے سے پہلے میٹرو پولیٹن کارپوریشن لاہور کو تین سے چار ارب روپے سالانہ مل جاتے تھے۔ پچھلے برس میں نے تمام 274 یو سیز کو فی کس 50 لاکھ روپے سے ایک کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز دیئے۔ تاکہ وہ اپنے علاقے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکوں، بارش سے متاثرہ اسٹریٹ لائٹس اور گٹر کے ڈھکنوں سمیت سیوریج کے سسٹم کی بہتری کو برقرار رکھیں۔ ان 274 یو سیز میں یو سی چیئرمین براہ راست منتخب ہوئے۔ جبکہ ریزرو سیٹوں پر آنے والے 35 یو سی چیئرمینوں کو بھی میں نے 20 سے 25 ہزار فی کس دیئے۔ اور یہ نہیں دیکھا کہ کس کا تعلق کس پارٹی سے ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کی حکومت نے آتے ہی بلدیاتی نمائندوں کو بے اختیار کر دیا۔ میں نے مارشل لاء بھی دیکھے ہیں۔ ان کا بھی ایک قاعدہ اور سلیقہ ہوتا ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کی جمہوری حکومت نے تو ناانصافی کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں‘‘۔ میئر لاہور نے بتایا کہ پنجاب میں کل 59 ہزار 464 بلدیاتی نمائندے منتخب ہوئے۔ اور صوبے بھر میں 9 ڈویژنوں کے میئرز اور 37 اضلاع کے ڈسٹرکٹ چیئرمین موجود ہیں۔ ان میں سے تقریباً 92 فیصد کا تعلق نون لیگ سے ہے۔ جنہیں صرف ان کی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر فنڈز سے محروم کر دیا گیا ہے۔ نہ صرف میئرز اور ڈسٹرکٹ چیئرمینوں کے صوبائی ایوارڈ کے تحت ملنے والے فنڈز روکے گئے۔ بلکہ جو میئرز اپنے طور پر مختلف ٹیکسوں کی مد میں ریونیو جمع کرتے تھے، اس سے بھی انہیں روک دیا گیا ہے۔ میئر لاہور نے بتایا کہ ’’میں بطور میئر، لاہور سے اپنے طور پر بھی پراپرٹی ٹیکس، دکانوں اور ہوٹلوں اور سیوریج کی مد میں وصول کردہ مختلف ٹیکسوں کی مد میں سالانہ چار سے ساڑھے چار ارب روپے جمع کر لیتا تھا۔ لیکن اب یہ سلسلہ رک چکا ہے۔ اور شرط لگائی ہے کہ جب تک چیف انجینئر اس کی منظوری نہیں دے گا، ایک روپیہ جاری نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ چیف انجینئر صاحب کا حال یہ ہے کہ وہ ہماری درخواستوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے‘‘۔