حاجی عبدالوہاب کے جنازے میں لاکھوں افراد کی شرکت

0

نجم الحسن عارف/ عظمت علی رحمانی
لگ بھگ بیس برس سے وہیل چیئر پر آئے اور برسوں دمے جیسے موذی مرض سے لڑتے رہنے کے باوجود حاجی عبدالوہاب نے آخری سانس تک شرعی احکامات کی پاسداری کو مقدم رکھا۔ اتوار کی صبح پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں پر یہ افسوس ناک خبر بجلی بن کر گری کہ بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاس کاندھلوی کی زندگی میں تبلیغی جماعت کا حصہ بن کر 80 سال دعوت و تبلیغ میں گزارنے والے رائو عبدالوہاب المعروف حاجی عبدالوہاب 96 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ آہوں، سسکیوں، دعائوں اور ذکر کے ہدیے کے ساتھ ایک جم غفیر نے تبلیغی مرکز رائیونڈ کے وسیع و عریض پنڈال میں نماز جنازہ میں شرکت کی۔ واضح رہے کہ 12 لاکھ کی گنجائش والی اس اجتماع گاہ میں تل دھرنے کو جگہ باقی نہیں بچی تھی۔ نماز جنازہ کے بعد مرحوم کو تبلیغی مرکز کے قبرستان میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔ اسی قبرستان میں تبلیغی جماعت کے مولانا جمشید کے علاوہ پاکستان اور دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں ارکانِ تبلیغی جماعت دفن ہیں۔ نماز جنازہ مولانا نذرالرحمان نے پڑھائی۔ حاجی عبدالوہاب نے 80 سالہ تبلیغی زندگی کے دوران ملک کے اندر اور ملک سے باہر جانے والی لاکھوں جماعتوں کو دعائوں کے ساتھ رخصت کیا۔
1922ء میں پیدا ہونے والے بھائی عبدالوہاب نے اسلامیہ کالج لاہور سے بھی تعلیم پائی۔ وہ کسی باضابطہ مدرسہ سے فارغ التحصیل نہ تھے، بلکہ عمومی دنیوی تعلیم کے بعد نوجوانی میں ہی تحصیل دار بن گئے، لیکن بعد ازاں جلد ہی تبلیغ کے مشن سے متاثر ہو کر زندگی اور اپنا سب کچھ اسی کے نام کر دیا۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے تحصیل داری کو خیر باد کہا اور 1944 ء میں پہلی مرتبہ بستی نظام دین دہلی میں تبلیغی جماعت کے مرکز جا پہنچے۔ پھر وہ فنافی التبلیغ ہو گئے۔ حاجی عبدالوہاب تبلیغی جماعت پاکستان کے تیسرے امیر رہے۔ مرحوم، پاکستان میں تبلیغی شوریٰ کے امیر رہنے کے علاوہ عالمی تبلیغی شوریٰ کے بھی رکن تھے۔ وہ کچھ عرصہ سے دمے اور دل کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ دمے کا عارضہ کئی برسوں پر محیط ہو چکا تھا، جس کا علاج لاہور اور اسلام آباد میں ہوتا رہا۔ حالیہ چند دنوں سے طبیعت زیادہ بگڑنے پر لاہور کے ہی ایک نجی اسپتال میں زیر علاج تھے۔ جہاں گزشتہ روز صبح صادق ان کا انتقال ہوا۔
انتقال کی خبر سنتے ہی رائے ونڈ مرکز میں موجود ہزاروں افراد کی ہچکیاں بندھ گئیں، تاہم مولانا جمیل نے صبر کی تلقین کے لئے نبیؐ کی رحلت کو یاد کرنے کی نصیحت کی، تاکہ اس غم کا احساس ہلکا ہو سکے۔ انتقال کی اطلاع تھوڑی ہی دیر میں پورے ملک کے دور و نزدیک پھیل گئی اور جنازے میں شرکت کیلئے طول و عرض سے ہزاروں افراد رائے ونڈ مرکز پہنچنا شروع ہو گئے۔ رائے ونڈ مرکز، نماز ظہر تک تبلیغی جماعت کے کارکنوں اور عوام سے بھرگیا تھا۔ رائیونڈ میں سوگ کے باعث تجارتی مراکز اور دکانیں بند کر دی گئیں۔ تبلیغی مرکز میں علما نے حاجی عبدالوہاب کے جسد خاکی کو غسل دیا۔ بعد ازاں میت دیدار عام کیلئے اسی حجرے میں رکھ دی گئی، جو برسہا برس تک ان کی قیام گاہ رہا۔ نماز ظہر کے بعد تبلیغی مرکز میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ سینکڑوں گاڑیاں اور ہزاروں تبلیغی کارکن مرکز کے اندر اور باہر موجود تھے۔ جنازے میں لاکھوں کی تعداد کی توقع کے باعث سیکورٹی کے خصوصی انتظامات کے علاوہ ٹریفک کا بہائو درست رکھنے کیلئے ٹریفک پولیس کی بھی بھاری نفری رائیونڈ روڈ اور تبلیغی مرکز کے آس پاس تعینات کی گئی تھی۔ عصر کے بعد جگہ جگہ ٹریفک جام کا منظر دیکھا گیا، جس کے بعد لاہور سمیت دیگر اطراف کے علاقوں میں پنجاب ٹریفک پولیس کی جانب سے نیا روٹ جاری کیا گیا، تاکہ جنازے میں آنے والوں کو آسانی سے راستہ میسر ہو اور دیگر شہریوں کو بھی پریشانی کاسامنا نہ کرنا پڑے۔ سٹی ٹریفک پولیس لاہور نے بیرون شہر سے آنے والوں کو دین ملز کے سامنے زافا روڈ اور نثار ملز سمیت دیگر علاقوں میں پارکنگ کی جگہ فراہم کی تھی۔ دوسری جانب کراچی سے پی آئی اے کی جانب سے روٹین سے ہٹ کر لاہور جنازے میں شریک ہونے والوں کیلئے خصوصی فلائٹ کا شیڈول جاری کیا گیا تھا۔ جبکہ بنگلہ دیش اور ملائیشیا سے بھی تبلیغی جماعت کے وابستگین کی بڑی تعداد جنازے میں شریک ہوئی۔ پنجاب کے تمام مدارس کے علمائے کرام کی جانب سے جنازے میں شرکت کی گئی۔ لاہور کے دینی مدارس میں طلبا کو جنازے کیلئے باقاعدہ چھٹی دی گئی اور مدارس و مساجد سے قافلوں کی صورت میں جوق در جوق لوگ جنازہ گاہ روانہ ہوئے۔ آنے والوں کا ایک سرا کلمہ چوک، جبکہ دوسرا رائیونڈ روڈ پر تھا۔ لاہور موٹروے پر کئی کلو میٹر تک گاڑیاں لمبی قطاروں میں کھڑی رہیں، جس کی وجہ سے ہزاروں افراد جنازے میں شریک نہ ہو سکے۔ موٹر وے پر بھی ٹریفک کا نظام رش کی وجہ سے شام کے اوقات میں متاثر ہوگیا تھا۔ نماز جنازہ میں بھی قدرے تاخیر ہوئی اور رائیونڈ کے چہار طرف کئی کئی کلو میٹر تک ٹریفک عشا کی نماز کے بعد تک بری طرح جام رہی۔ واضح رہے کہ یہ سلسلہ نماز ظہر کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا، جسے ٹریفک پولیس سنبھال نہ سکی۔
تبلیغی مرکز میں لوگوں کی آمد شروع ہوتے ہی یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ نماز ظہر کے بعد تمام لوگ پنڈال میں جمع ہونا شروع ہو جائیں تاکہ کسی قسم کی رکاوٹ کے بغیر جنازہ کے شرکا صف بندی کر سکیں۔ اس سلسلے میں تبلیغی مرکز سے گاہے گاہے اعلانات بھی کئے جاتے رہے اور کارکنوں کو صبر کے ساتھ نظم و ضبط کا دامن تھامے رکھنے کی ہدایت کی جاتی رہی۔ بعد نماز مغرب ان کی نماز جنازہ کی ادائیگی سے قبل ان کی وصیت اسی دعوت کے مشن کو آگے بڑھانے کیلئے اور اس کو آگے بڑھانے والوں کیلئے بطور خاص پڑھ کر سنائی گئی۔ وصیت کے الفاظ یہ تھے کہ ’’ میرے ساتھ تعلق و محبت رکھنے والوں کو چاہئے کہ وہ اپنی سوچ و فکر، استعداد اور صلاحیت کو دین کیلئے وقف کر دیں‘‘۔ ان کی وصیت میں تبلیغی مرکز کے 53 شعبوں کیلئے بھی کارکنوں تبلیغی مرکز کے ذمہ داروں کو رہنمائی تھی کہ معاملات مشاورت کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں۔ وصیت پڑھ کر سنائی جانے کے بعد تبلیغی مرکز میں بھائی عبدالوہاب کے بعد اہم ترین بزرگ تسلیم کئے جانے والے مولانا نذر الرحمان نے نماز جنازہ پڑھائی۔ نماز جنازہ میں مولانا جمیل، مولانا طارق جمیل، جماعت اسلامی پاکستان کے قائم مقام امیر حافظ محمد ادریس، اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی، جامعہ اشرفیہ کے سربراہ مولانا فضل الرحیم، ڈاکٹر فرید پراچہ، راسخ الٰہی، سالک حسین، جے یو آئی (ف) کے مولانا امجد اجمل، مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری شجاعت، پرویز الہی اور مسلم لیگ (ن) پنجاب کی قیادت سمیت تبلیغی جماعت کے حالیہ اجتماع کیلئے بیرون ملک سے آئے بزرگوں اور علما، تبلیغی کارکنوں اور عوام نے بھی شرکت کی۔ تبلیغی مرکز کے ذرائع کے مطابق بھارت سے آئے تبلیغی بزرگوں کے علاوہ سعودی عرب و دیگر ممالک سے آئی شخصیات نے بھی بطور خاص شرکت کی۔ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد تبلیغی مرکز کے قبرستان میں بھائی عبدالوہاب کو آنسوئوں، سسکیوں اور دعائوں کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔
خیال رہے کہ حاجی عبدالوہاب کسی مدرسہ سے باضابطہ فارغ التحصیل نہ ہونے کے باعث اپنے نام کے ساتھ مولانا لکھنے یا بولنے کو پسند نہ کرتے تھے۔ بلکہ کہتے تھے کہ یہ حق ان لوگوں کا ہے، جو باضابطہ طور پر مدارس کے فارغ ہیں۔ انہیں شروع سے تبلیغی جماعت کے ساتھی بھائی عبدالوہاب کہہ کر پکارتے اور یاد کرتے تھے۔ لیکن حالیہ برسوں میں انہیں عام طور پر حاجی عبدالوہاب کہا جانے لگا۔ بھائی عبدالوہاب کے بارے میں ’’امت‘‘ کو تبلیغی مرکز سے معلوم ہوا ہے کہ ان کی اہلیہ بہت سال پہلے انقال کر گئی تھیں، تاہم شادی کے بعد ان کے ہاں اولاد نہ ہوئی تھی۔ ان کا گھر بھی تبلیغی مرکز تھا۔ وہ جنوبی پنجاب کے زمینداروں میں تھے، لیکن اب ان کی شناخت صرف تبلیغ تھی، اور ان کے رشتہ دار تبلیغی جماعت کے وابستگان اور کارکن تھے۔ ان کی خدمات کے لئے تبلیغی مرکز کے طلبا ہی مامور رہتے تھے۔ خور و نوش سے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ حاجی عبدالوہاب اس سلسلے میں بہت نظم کا خیال نہ رکھ پاتے تھے کہ ان کی ترجیح صرف دعوت و تبلیغ تھی۔ ان ذرائع کے مطابق ان کی خوراک میں انڈے، بکرے کے گوشت اور سبزیوں کے علاوہ سیب ، کیلے اور جاپانی پھل اور انجیر پسندیدہ تھے۔ بکرے کا گوشت عام طور پر مرچوں کے بغیر استعمال کرتے، مگر زیادہ کھانے کا رحجان نہ رکھتے تھے۔ ان کے قریبی احباب کے مطابق چہل قدمی کا شروع میں بھی کم ہی وقت ملتا تھا کہ ان کی تبلیغی مصروفیات اور تبلیغی مرکز کی ذمہ داریاں آڑے آتیں۔ جبکہ پچھلے 20 برسوں سے بیماری کے باعث وہ وہیل چیئر پر آ گئے تھے۔ دمے کی بیماری شدید ہونے کے بعد طویل عرصہ تک زیر علاج رہے۔ ڈاکٹروں نے انہیں گرد و غبار سے محفوظ رکھنے کیلئے ان کے کمرے میں گلاس ورکس کی ہدایت کر دی تھی، لیکن ڈاکٹروں کی اس درجے کی احتیاط کے مشوروں کے باوجود وہ دعوت و تبلیغ کیلئے کسی چیز کو رکاوٹ نہ بننے دیتے۔ عبادات کا بھی ان کا معمول مثالی رہا۔ عمر کے آخر تک پورے روزے رکھنے کا اہتمام کیا۔ رمضان کے علاوہ بھی قیام اللیل کرتے اور عام دنوں میں بھی عبادات اور تبلیغ ہی ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔ وہ خود بھی روزانہ ایک ہزار مرتبہ سورۃ اخلاص کی تلاوت اور تین ہزار بار یا حی یا قیوم کا ورد کرتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی نصیحت کرتے۔ تبلیغی بیان کا دورانیہ پانچ منٹ سے پانچ پانچ گھنٹوں پر محیط ہو جاتا، لیکن وہ کبھی بھی اس کو اپنی تھکن یا اکتاہٹ کا باعث نہ سمجھتے۔
واضح رہے کہ 2014ء میں جاری ہونے والی 500 با اثر مسلمان شخصیات کی فہرست میں آپ کا نام 10 ویں نمبر پر تھا۔ دوسری جانب تبلیغی جماعت کے ذرائع سے پتا چلا ہے کہ نئے امیر کا فیصلہ ملک بھر کے صوبائی اور ضلعی امراکی شوری میں کیا جائے گا۔ حاجی عبدالوہاب کے انتقال پر مولانا طارق جمیل کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ حاجی عبدالوہاب کے بعد امارت کا حتمی فیصلہ ابھی نہیں ہوسکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کیلئے جیتے ہیں انہی میں سے ایک حاجی عبدالوہاب صاحب بھی تھے۔ اپنی ذات کی، جذبات کی اور ضروریات کی پرواہ کئے بغیر انہوں نے لوگوں کو نفع پہنچانے کی فکر کی۔ انہوںنے اپنی زندگی کا ہر پل، ہر لمحہ اللہ اور اس کے رسولؐ کیلئے وقف کر رکھا تھا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More