تربیلا ڈیم سے 91کلومیٹر تک زمینوں کوسیراب کرنے کامنصوبہ
اسلام آباد ( نمائندہ امت) زرعی ضروریات پوری کرنے کیلئے ایشن ڈیویلپمنٹ بینک کی معاونت سے تربیلا ڈیم سے نہری نظام کے ذریعے 91کلومیٹر تک زمینوں کو پانی مہیا کرنے کےمنصوبے کاآغاز کردیاگیاجو دسمبر 2022تک مکمل کر لیا جائے گا۔جبکہ بنجر علاقوں کو سیراب کرنے کیلئے 30کلومیٹر لمبی پریشر پائپ لائن بھی بچھائی جائے گی۔سپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطح اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ملک میں موجودہ پانی کے بحران سمیت زراعت اور کاشتکاری سے متعلقہ امور زیر بحث آئے۔ پیہور ہائی لیول کینال ایکسٹینشن پروجیکٹ کے ڈائریکٹر عطاء الرحمن نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایشن ڈیویلپمنٹ بینک کے تحت 10.1بلین روپے سے ایک منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس کے تحت تربیلا ڈیم سے نہری نظام کے ذریعے91کلومیٹر تک زرعی زمینوں کو پانی مہیا کیا جائے گا۔سپیکراسد قیصر نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اوراسکی زراعت کا دارومدار پانی کی وافر مقدار میں موجودگی پر منحصر ہے۔ ملک میں پانی کے موجودہ بحران پر قابو پانے کے لیے ہمیں اپنے وسائل کے پیش نظر ایسے اقدامات کرنے ہونگے جس کے ذریعے پاکستان نا صرف اپنی زرعی ضروریات پوری کر سکے بلکہ روزگار کے مواقع بھی میسر آسکیں۔ پاکستان کا شمار بڑے زرعی ممالک میں ہوتا ہے اور ہم اجناس اُگانے میں نہ صرف خود کفیل ہیں بلکہ دوسرے ممالک کی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی زراعت نہری اور بارانی نظام کے ذریعے چلتی ہے مگر حالیہ بحران کے باعث دریاؤں میں پانی کی کمی کی بدولت سرسبز علاقے بنجر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں اپنے موجودہ وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے طریقہ کار اپنانے ہونگے جس کے ذریعے ہم کھیت کھلیانوں کو بنجر زدہ ہونے سے روک سکیں۔ اسد قیصر نے مزید کہا کہ تربیلا ڈیم کے ذریعے قریبی علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے چھوٹی نہریں اور پائپ لائن بچھائی جائیں جس کے ذریعے پانی سے محروم علاقوں تک زراعت کے لیے پانی پہنچایا جا سکے۔پیہور ہائی لیول کینال ایکسٹینشن پروجیکٹ کے ڈائریکٹر نے شرکاء کو بتایاکہ اس متبادل نظام کے تحت228کیوسک پانی صوابی اور اُس سے ملحقہ علاقوں تک پہنچایا جائے گا جس سے 30ہزار5سو ایکڑ اراضی کو سیراب کر کے زیر کاشت لایا جائے گا۔ یہ منصوبہ دسمبر 2022تک مکمل کر لیا جائے گا۔ اس وقت متعلقہ علاقوں میں بارانی نظام کے تحت 6ہزار میٹرک ٹن پیدوار ہو رہی ہے جبکہ منصوبہ مکمل ہونے کے بعد علاقے کی پیدوار 1لاکھ 15ہزار میٹرک ٹن تک پہنچ جائے گی۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ جنڈا بوکا، ٹوپی، مینئی، پنج پیر، کالادرہ، میاں ڈھیری، گجو خان، میرہ، امبار، انڈس،نندرک، شاہ منصور، گنج ونڈ، جنڈی ڈھیری سمیت دیگر علاقے مستفید ہونگے بریفنگ کے بعد گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اس منصوبے کی تکمیل سے علاقے اور ملک کی ناصرف زرعی پیداوار میں ترقی آئے گی بلکہ علاقہ مکینوں کو روزگار کے نئے مواقع بھی میسر ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ کاشتکار زرعی اجناس کی پیداوار کے ذریعے اپنی خوراک کی ضروریات پوری کریں گے اور انہیں منڈیوں میں فروخت کر کے ملک کی معاشی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے اور اس سے سالانہ قومی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گا۔